Showing posts with label Culture. Show all posts
Showing posts with label Culture. Show all posts

Friday, July 1, 2016

میڈیا کا کردار اور معاشرت



میڈیا کا کردار اور معاشرت

شہیر شجاع

ہمارا میڈیا پاکستان کی سیاست سے لیکر معاشرت کو دکھانے میں اس قدر تنگ دست ہے کہ اس نے عوامی شعور میں ایک پرچھائی سی بچھا دی ہے ۔۔۔ جیسے پاکستان میں سوائے کرپشن، فرقہ واریت ، عورت کی حق تلفی ، مذہب کی غنڈہ گردی ، سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی وغیرہ کے سوا کچھ اچھا نہیں ۔۔۔ یعنی نتیجتا ۔۔۔ دماغ اس سوچ پر اپنا اختتام کرے کہ پاکستان کا بننا ہی غلط تھا ۔۔۔۔ میں اکثر فیس بک میں بھی ایسے دانشور یا نیم دانشوروں کی تحریریں پڑھتا ہوں تو افسوس اس بات کا نہیں ہوتا کہ وہ یہ کیا لکھ رہے ہیں ۔۔۔ بلکہ دو اسباب مجھے نظر آتے ہیں ۔۔۔ ایک یہ کہ یا تو وہ پاکستان کی بنیادی ضرورت اور اس کے آئین سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔ دوسرا یہ کہ وہ زر خرید لکھاری ہیں ۔۔۔۔
پاکستان کا آئین وہ آئین ہے جس پر عمل ہوجائے تو دنیا اس نظام کے نافذ کرنے پر اصرار کرے ۔۔۔ چونکہ اس نظام کے پس پردہ اسلام کا نام آنے کا مکمل جواز موجود ہے تو دنیا کیوں چاہے گی کہ مفتوحین کا پیش کردہ نظام وہ قبول کریں ۔۔کیونکہ فاتح میں ہمیشہ ایک غرور ہوتا ہے چھوٹی سی بات اے بھئ اس کی انا کو چوٹ پہنچتی ہے پھر یہ تو مکمل نظام ہے جس کے بل بوتے پر وہ سپر پاور کہلانے کا استحقاق حاصل کیے ہوئے ہیں ۔۔۔ خیر
پاکستان کی حکومت ، میڈیا ، ادارے کمزور ہوسکتے ہیں مگر معاشرت کے پرزے ابھی مضبوط ہیں ۔۔۔ یہ وہ آزاد فضا ہے جہاں ہم اس فاقہ کشی میں بھی سکون محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی سڑک پہ بیمار ہوجائے تو کی مدد کو دوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ شادی بیاہ میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔۔۔ غرض میرے دیس کی فضا میں نفرت کا وہ تعفن ابھی اس قدر جڑیں نہیں پکڑ پایا جس قدر میڈیا یا بیمار سوچ کے حامل افراد دکھانے کے کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ الحمدللہ ہم آزاد ہیں اور ہم سب اس سرزمین کی آبیاری کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔ نفرتیں اور تنگ دلی پھیلانے کے بجائے لکھاری ک مرتبہ امکانات جگانا ہو تو کیا ہی بات ہو ۔۔۔ خواب دکھانا اور طریق کی یاد دھانی بھی اہم مرتبہ ہے ۔۔۔ الحمدللہ ہم مایوس نہیں ہیں ۔۔۔۔ حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں تو اپنی بقا کے لیے لیکن ان سے پھر بھی ہم مایوس نہیں کیونکہ وہ بھی پاکستانی ہیں ۔۔۔ شاید مثبت تنقید و احتجاجی رستے ہموار کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر

Saturday, April 23, 2016

اعزاز و معزز

اعزاز و معزز

شہیر شجاع

پہلی صف میں کھڑا وہ  اطمینان سے  نہیں بیٹھ رہا تھا ۔ مسلسل متحرک ۔۔۔ لطف یہ کہ اسے کوئی منع بھی نہیں کر رہا تھا ۔ جیسے کہیں اس کے ذہن کے گوشوں میں تکبر کا عنصر موجود ہو ۔  یہ روز کا معمول تھا ۔ علم ہوا وہ  بچہ امام صاحب  کے بیٹے ہیں ۔کالج میں پانچ لڑکوں کی ٹولی یوں گھومتی جیسے یہ کالج نہ ہو غلاموں کی بستی ہو ، اور وہ ان کے آقا ۔ ان پانچ میں ایک نمایاں ہوتا ۔ بقیہ گروہ کے لڑکوں کا طرز عمل اس کو عالیجاہ سمجھنے اور سمجھانے میں بالکل بھی دھوکا نہیں کھا سکتا تھا ۔ معلوم ہوا وہ کالج کے پرنسپل کا لڑکا ہے ۔ اسی طرح مزید بھی کئی ٹولیاں ہوتیں ، سننے میں آتا کہ فلاںمجلس شوری کے ارکان( ایم این ایز)کی اولاد ہیں ۔  جب کالج و جامعہ سے فراغت  کے بعد در در کی ٹھوکروں کی جزا میں ایک نوکری نصیب ہوئی ۔ ہر موقع پر احساس دلایا جاتا کہ ، تم بے اختیار ہو ، اپنے دماغ کو کام میں لانے کی ضرورت نہیں ۔ بس احکام بجا لاو ۔ ہر ہر موقع پر عزت نفس  کا مجروح ہونا ، احساس تذلیل بڑھا جاتا ۔ اپنے آپ سے کراہت شدید کراہت محسوس ہونے لگتی ۔ بازار جاتا تو دکاندار ایسی چبھتی نظروں سے دیکھتا جیسے  میں کوئی کریہہ صورت  بھکاری ہوں ۔ جبکہ میں سودا اتنا ہی لیتا جتنے میرے پاس پیسے ہوتے ۔ اگر کم پڑجاتے تو سامان کم کروالیتا ۔ جس وجہ سے دکاندار کی " چار باتیں " بھی کڑوے گھونٹ پی لیتا ۔ بجلی کا بل جمع کروانے جاتا ، سخت دھوپ میں طویل قطار ، کئی گھنٹے بعد کھڑکی کے سامنے میرا چہرہ ہوتا ۔ بل جمع کرنے والا یوں مخاطب ہوتا جیسے وہ میرا بل جمع کر کے مجھ پر احسان کر رہا ہو ؟ کیا واقعی ؟ میں سوچتا  ! مہینے بھر میں نے بجلی استعمال کی ،  خواہ دن میں چند گھنٹے استعمال کی مگر کی ، بل کم ہے یا زیادہ ، ادا کرنا ہی ہے ،  مجھ جیسے کریہہ انسان کی بجلی والی کمپنی کیونکر مدد کرے گی ۔ لیکن جب میں وہ بل ادا کرنے گیا ہوں تو مجھے اتنی عزت تو ملنی چاہیے کہ میں ان کا  " معزز صارف " ہوں ۔ جب بھی بجلی کے بل پر لکھا معزز صارف دیکھتا ہوں ، تو معزز کے الفاظ ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں ۔ آخر ایک دن میرے دل کا سارا  غبار نکل ہی گیا ۔ جب میری ملاقات اس خوبرو نوجوان سے ہوئی  ۔ جو میڈیکل یونیورسٹی میں صرف اس لئے نکال باہر کیا گیا کیونکہ وہ فیس نہیں ادا کر پایا تھا  ۔ اس کے بعد اس نے وہ راستہ اختیار کیا جہاں وہ بااختیار تھا ۔ روپیہ پیسہ ، گھر بار ، رعب دبدبہ سب کچھ تھا ۔ عزت تو نہ پہلے تھی نہ اب ہے ۔ مجھے اس کا راستہ پسند آیا ۔اسے اگلے دن ملنے کا کہا ۔ رات بھر سوچتا رہا ۔ کروٹیں بدلتا رہا ۔ بہت سے خیالات ، افکار ذہن کے پردے پر چلنے لگے ۔دن سے رات تک جتنے عوامل کا مجھے سامنا ہوتا ، ان کا تجزیہ ہوتا رہا ۔ اور بالآخر فیصلہ میرے پاس تھا ۔ کب آنکھ لگی کب صبح ہوئی پتہ نہ چلا ۔ اگلے دن وقت مقررہ پر میں اس کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ اس کی منزل تو شاید جیل ہی تھی ، یا کسی پولیس مقابلے میں نعش ہوجانا ۔ مگر میں نے  اس سے بھہی آگے جانا تھا ۔ " معزز " ہونا تھا ۔ سیاستدان ہونا تھا ۔

Sunday, March 13, 2016

معاشرت ومذہب

ایک سچا واقعہ ( ایک سبق )
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کی ماں بستر مرگ پر پڑی تھی ۔۔۔۔ مذہب سے وہ ہندو تھے ۔۔۔ طبی علاج معالجے کے بعد ۔۔۔ روحانی علاج شروع ہوا ۔۔۔ تانترکوں نے بتایا کہ ۔۔۔۔۔ بی بی پر کالا عمل کیا گیا ہے ۔۔۔۔ بڑے بڑے تانترک بلائے گئے ۔۔۔۔ کوئی کہتا سمند رکی تہہ سے سیپیاں لے آو تو کوئی کہتا ۔۔۔۔ آسمانی پرندہ جو اونچا اڑتا ہو اس کے پر ۔۔۔۔ وہ سب کچھ کرتا گیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں ایک دانہ اناج نہ ایک پائی پیسہ بچا۔۔۔ دو دن کا فاقہ تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سائیکل نکالی ۔۔۔۔ بالکل مایوس ۔۔۔ مایوسی کی آخری حدوں میں وہ انسان ۔۔۔۔ چلا جا رہا تھا ۔۔۔ ندی کنارے سائیکل کھڑی کرکے ایک طرف بیٹھ گیا ۔۔۔ سرجھکائے کافی دیر بیٹھا رہا ۔۔۔ سامنے سڑک ہر دو بندے آتے دکھائی دیے ۔۔۔ وہ اٹھا ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ وہ رک گئے ۔۔۔
اس نے کہا ۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ اور اپنی صورتحال بتائی ۔۔۔
انہوں نے کہا۔۔۔ کہ یار ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔ ؟ تھے وہ بھی ہندو ۔۔
انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ ۔۔۔ یہاں سے کچھ دور ایک عبادت گاہ ہے ۔۔۔ وہاں چلے جاو۔۔۔۔
اس نے سائیکل اٹھائی ۔۔۔ اس راہ کو چل دیا ۔۔۔۔
وہ ایک کنیسا تھا ۔۔۔۔
اندر داخل ہوا ۔۔۔۔ کلائیوں ۔ بازووں ۔۔۔ اور گلے میں ۔۔۔۔ رنگ برنگی رسیوں سے لدا پھندا ۔۔۔۔
سامنے سے پادری کی اس پر نظر پڑی ۔۔۔ بندہ اس کے قریب پہنچا ۔۔۔
پادری اس کو دیکھے وہ پادری کو۔۔۔۔
پوچھا ۔۔۔ کیا بات ہے بیٹا ۔۔۔؟
اس نے اپنی روداد کہہ سنائی ۔۔۔۔ پادری نے آہستہ سے سر کو جنبش دی ۔۔۔۔ اور کہا ۔۔۔۔
یہ رسیاں ساری کاٹ کر پھینک دو ۔۔۔ اس نے تعمیل کی ۔۔۔۔
دو شیشیاں دی ۔۔۔ ایک میں پانی اور دوسری میں تیل ۔۔۔ کہا۔۔
پانی سارے گھر میں چھڑک دینا ۔۔۔۔ اور تیل مریض کے جسم میں مل دینا ۔۔۔۔۔
""" ہر اتوار کویہاں آجانا """ اور اگر نہ آسکو تو گھرپر ہی عبادت کر لینا """
بندے کا دل عجب سکون سے سرشار ہوگیا۔۔۔۔ وہ پلٹا ۔۔۔ پادری کی باتوں میں عمل کیا ۔۔۔۔ اس کی مشکلات بھی دور ہوگئیں ۔۔۔ تب سے وہ کرسچئین ہے۔۔۔۔

Saturday, March 12, 2016

تربیت اولاد اور ہم




تربیت اولاد اور ہم

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تربیت اولاد  ہماری  ذمہ داریوں میں نہایت ہی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔۔۔۔  میری نظر جب اپنے اطراف میں پڑتی ہے تو مجھے  نظر آتا ہے کہ ۔۔۔۔ آج کے والدین کی سوچ ، معیار سوچ  و مقصد تربیت یکسر بدل چکا ہے ۔۔۔ ویسے تو ہمارا تہذیبی زوال  کئی سو سال پہلے شروع ہو چکا تھا ۔۔ مگر آسمانی تہذیب اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ۔۔۔ اور جس دن یہ ختم ہوئی اس دن دنیا سے انسان کا وجود بھی مٹ جائے گا یعنی قیامت برپا ہوجائے گی ۔۔  
اس فانی زندگی میں ہمارا اس قدر گم ہوجانے کی واضح دلیل یہ ہے کہ ۔۔ ہم پر سختیاں پڑتے ہی زبان پر شکوے آجاتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے آپ کو کم بخت و  بد نصیب کرداننے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اگر اس کی معمولی سی تصویر دیکھنی ہو تو ۔۔۔  آج کے شعری ادب کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔  جبکہ جو زندگی ہماری ابدی ہوگی ۔۔۔ اس کا  شعور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا نہیں بلکہ بٹھایا جا رہا ہے ۔۔ جس میں وہ عناصر بخوبی کامیاب بھی ہیں ۔۔ کہ مذہبی لوگ عذاب سے ڈرا ڈرا کر انسان کو کمزور کرتے ہیں ۔۔۔ جنت کا تصور ہی پیش نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس جملے نے اس قدر پذیرائی حاصل کی ہے کہ  اب  عذاب آخرت کا تصور ہمارے ذہنوں سے تقریبا محو ہو کر رہ گیا ہے ۔۔ عربوں کے ہاں ایک جملہ اسی مد میں بقدر سننے کو ملتا ہے کہ ۔۔۔ گر غلطیاں ہوجائیں تو ۔۔ کہہ دیتے ہیں ۔۔ اللہ غفورو رحیم ہے ۔۔ وہ معاف کردے گا ۔۔ سو کرتے جاو ۔۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہم نڈر ہوگئے ہیں ۔۔ اور تصور زندگی ۔۔ حقیقتا معیار زندگی کو بلند کرنا ہی رہ گیا ہے ۔۔۔۔  
ہمارا آج کا معاشرہ اس قدر  متذبذب کیوں ہے ؟  آج کے نوجوان میں وہ بنیادی شعور زندگی کیوں موجود نہیں ہے  جس کی بنیاد ہمارے اجداد ہم میں بچپن سے ڈالتے  آئے ہیں۔۔۔ ہر موڑ پر ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہوتے تھے ۔۔ اور علم کی محبت ہمارے دلوں مین انڈیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔ کردار و معیار سوچ کو بلند کرنے  کی  تحریک دیتے تھے ۔۔ اور اس کے طریقے بتاتے تھے ۔۔۔۔ آج  صورت حال یہ کہ بزرگوں سے تو ہم نے مکمل ناطہ توڑ لیا ہے ۔۔ انہیں پرانے زمانے  کی بوسیدہ دیوار کہہ کر ایک طرف دھکیل دیا ہے ۔۔۔  اور ماوں کے دلوں میں یہ بات  سرایت کرتی جارہی ہے کہ ۔۔ ان کی اپنی بھی کوئی زندگی ہے ۔۔۔۔  وہ کیوں قربان کی جائے ۔۔۔  اور باپ   آخر اُس بلندی کو چھونے کی تگ و دو میں اولاد سے  یکسر غافل ہوجاتا ہے ۔۔ اسکول   ٹیوشن آتا جاتا دیکھ کر وہ مطمئن رہتا ہے ۔۔۔ اس بچے کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ۔۔ دن کے چند گھنٹے ماں باپ کے ساتھ بیٹھ جائے ۔۔۔ کہ یہ صحبت بھی  بہت اہم ہے ۔۔۔ بزرگ گھر پر ہوں تو اس سے اچھی کیا بات ہو کہ ان کی صحبت تو والدین کی صحبت سے ہزار درجہ بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔۔  ہم بہت سے تعمیری کام ، رویوں  اور اقدام کا ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ اگر صرف اس جانب توجہ دے لیں ۔۔ اور اپنے مقاصد طے کرلیں تو ۔۔۔ چند ہی سال گزریں گے ۔۔۔۔۔۔ سماج اور معاشرے میں نمایاں فرق خود ہی محسوس ہونے لگے گا ۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...