Saturday, December 26, 2015

سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ


سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ ۔

شہیر شجاع

سائنس اور مذہب ۔۔ ہر دو کی ارتقاء کو قبول کرنے میں انسان  کا رویہ ایک ہی جیسا ہے ۔ ۔۔۔ مگر انتہا  میں ایک بہت بڑا فرق ہے ۔۔ ۔۔
  سائنس انسان کے غور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔۔ جس میں یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں ۔۔ مختلف لوگ اپنی تحقیقات پیش کرتے ہیں ۔۔ یعنی اپنا علم پیش کرتے ہیں ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ مزید لوگ آتے ہیں جو ان ہی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔ یعنی علم کی اعلی سے اعلی شکل دریافت کرتے  ہیں ۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۔۔ پچھلی تحقیق  کا خالق  ناکارہ تھا ۔۔ بلکہ اس کا مقام اس کی عزت و احترام بھی ساتھ ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔۔۔ مگر تاج اسی کے سر بیٹھتا ہے  جو تحقیق کو ایک کمل شکل دے ۔۔۔ مگر یہ بھی ہے کہ  سائنس میں ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحقیق مکمل ہو ۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے  ۔۔ ۔
مذہب  میں صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔ یہ علم آسمان سے اللہ کی طرف سے انسان کے لیے آتا ہے ۔۔۔ اور اس کا ذریعہ اللہ جل شانہ ۔۔ انہی انسانوں میں سے ایک انسان کو منتخب فرماتے ہیں ۔۔ جسے تمام انسانون میں اعلی و ارفع کرتے ہیں ۔۔۔ اور اسے نبی  و رسول اللہ ۔۔ کا نام یا مقام دیتے ہیں۔۔ اور ان کے ذریعے سے وہ علم دنیا کے دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔ 
ہر  دو میں انسان کے دو مختلف رویے رہے ہیں ۔۔ سائنسی تحاقیق  میں ہر اول محقق کا نام و مقام باقی رہتا ہے ۔۔ لیکن ساتھ ہی ۔۔ نئے محقق کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اسے نسبتا زیادہ سراہا جاتا ہے ۔۔
جبکہ مذہب کے معاملے میں ہر نئے علم کے لانے والے کو انسان رد کرتا آیا ہے ۔۔۔ اور اصرار یہی رہا کہ جو پہلے علم لانے والا تھا وہی برحق تھا ۔۔
موسی علیہ السلام کے ماننے والوں نے عیسی علیہ السلام کو رد کیا ۔۔ عیسی علیہ السلام پر یقین رکھنے والوں نے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا ۔۔۔ بس وہی کامیاب رہا ۔۔ جس نے علم کو علم سمجھا ۔ ۔ اور علم کی ارتقاء کو قبول کیا ۔۔

ماخوذ از ۔۔۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب

Thursday, December 24, 2015

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا






وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا 
 شہیر شجاع 

سرزمین عرب کے ریگزاروں میں عجب سرکشی و انسانیت سوز مناظر کا دور دورہ تھا ۔کہ مٹی مٹی بوٹا بوٹا پناہ مانگے ۔ کہ اسی دوران ان کے درمیاں ایک نہایت باعظمت خاندان  میں ایک چشمہ پھوٹا ۔ جس نے اپنے پیدا ہونے سے چند ماہ قبل ہی یتیمی کا تاج پہن لیا تھا ۔ عظمت کے لیے خالق کائنات  بہت سی پیچیدگیاں اپنے بندوں میں پیدا کرتا ہے ۔۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ انسان  کی عظمت رفتہ میں  نمایاں کردار ادا کرتی ہیں ۔۔۔  وہ بچہ ابھی چند سال کا ہی تھا کہ مستقل یتیمی کا تاج سر پر پہن لیا ۔  دادا کے ہاتھوں تربیت کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔ پر یہ سایہ شفقت بھی تادیر قائم نہ رہ سکا ۔ اس کے  بعد اس عظیم المرتبت بچے کے سر پر اللہ جل شانہ نے چچا کا سایہ قائم فرما دیا ۔۔۔
اللہ جل شانہ کا کوئی بھی عمل بلا مقصد و مصلحت نہیں انجام پاتا ۔۔  یہ بھی ایک طریقہ تھا امت کو بتلانے کا ، رشتوں کی اہمیت کو جتانے کا ۔۔ تربیت کے اصولوں کو باور کرانے کا ، محبت کی اہمیت اجاگر کرنے کا ۔
جو اپنی رضاعی ماں کے لیے  اپنی چادر اتار کر زمین پر بچھا دیتا ۔ جو  مہاجر ہو کر اپنی عظیم المرتبت بیوی ( رضی اللہ عنہا ) کی قبر مبارک سے دور ہوتا ہے ۔۔ اور جب واپس اپنے وطن لوٹتا ہے تو ۔۔ وہ راستہ منتخب کرتا ہے جہاں اس کی وہ عظیم بیوی آسودہ خاک ہے ۔
وہ  عظیم المرتبت انسان ۔۔۔۔۔(صلی اللہ علیہ وسلم ) جب لوگوں کے پتھروں سے خونم خون ہوجاتا ہے ۔۔  تو ان کے دل سے پھر بھی کوئی بد دعا یا کلام  بے فیض نہیں نکلتا ۔۔ بلکہ دعائیں اور  اچھائی کی تمنا ہی ہوتی ہے ۔  وہ    حالت کمزوری میں روا رکھے گئے ظلم و ستم  کے علمبرداروں کو طاقتور ہونے کے بعد معاف کردیتا ہے ۔ وہ جو  کالے اور گورے کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے ۔  عورت کا مقام بلند اور مرد کو اس کا محافظ بناتا ہے ۔
جس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے اسلام جیسی عظیم نعمت دنیا کو بخشی ۔ انسان کو انسان بنائے جانے کے لیے  مبعوث ہوا ۔ جان کے پیاسوں کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ یہ اسی اسلام کا سرخیل تھا  جس نے انسانیت کا سب سے پہلا سبق دنیا کو پڑھایا ۔ جس نے دنیا کو ایک نظام دیا ۔ ٹھوس معاشرتی نظام ۔ جس میں امیر غریب ۔ کمزور طاقتور سب کو برابر کا درجہ دیا ۔  انسانیت کیا ہے ؟ درحقیقت  اسلامیت ہے ۔ جس دنیا کو غور و فکر کی دعوت دی ۔ اور اذہان کو اس بات پر راضی کیا ۔ وہ اذہان جن کو سوائے قتل و غارت کے ۔ عصبیتی تناو کے اور کچھ نہ آتا تھا ۔۔ انہیں مفکر بنایا ، مدبر بنایا ، مقتدر بنایا ، معلم بنایا    ، سخی بنایا ، معاف کرنے والا بنایا ، غرض ہر وہ صفت جو معاشرہ  و ریاست مرتب کرتی ہے ، غور وفکر ہر حال میں ان کا شعار ہوتا ہے ۔۔۔۔   جی ہاں ۔۔۔ وہ انسانوں میں عظیم انسان بنے ۔ جنہوں نے دنیا کو امن دیا ، زندگی کی رونقیں بخشیں ۔  
وہ یتیم بچہ ایسا عظیم المرتبت ہوا کہ رحمت اللعالمین ہوا ۔   جو اپنے وقت کا عظیم سپہ سالار تھا ۔۔۔ جس کی سپاہ  کے پیٹ میں ایک ایک پتھر بدنھے تھے ۔ اپنے پیٹ میں  دو پتھر باندھے ۔۔ فاقہ کشی کر رہا تھا ۔۔ جو سب سے بڑا حکمران تھا ۔۔ وہ  ٹاٹ کی چٹائی ، مٹی کے گھروندے پہ سو رہا تھا ۔۔ وہ سراسر اسلام تھا  ۔ جو دنیا کو انسانیت کا درس دینے آیا تھا ۔ جو طریق حکمرانی ، طریق انسانی ، طریق زندگی سکھلانے آیا تھا  ۔     جس نے سکھلایا کہ ۔۔۔  مسلم ہو یا غیر مسلم ۔۔۔ اسلام کا درس انسانیت ہے ۔۔ سب کے ساتھ یکساں برتاو ہی  کامیابی کا راستہ ہے ۔
ہمیشہ امت کے درد میں راتوں کو جاگ کر اس کی مغفت و فلاح کی نہ صرف دعائیں کرنا ۔۔۔ بلکہ ہمہ وقت فلاح کے راستوں کی رہنمائی پر کمر بستہ رہنا ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا ہر پل صرف امت  کی بہبود و کامیابی کی سوچ و فکر میں صرف رہا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔  باہمی محبت ، ایثار و ہمدری و رواداری  کی بیشمار مثالیں قائم کیں ۔  
آج  ہمیں اپنے اس عظیم الشان لیڈر صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت مطہرہ  کے تناظر میں محاسبے کی ضرورت ہے ۔  شاید کہ آج  کے دن کو ہم منانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ محاسبہ تععین کریں ۔

Wednesday, December 23, 2015

نرگس فخری



ابھی حال ہی میں ۔۔۔۔ ایک اخبار کے اشتہار پر ۔۔۔۔ خوب شور و غل برپا ہوا ۔۔۔۔۔۔ وہ اشتہار اچھا تھا یا برا ۔۔۔۔ اس کے ادراک یا اطلاق کا پیمانہ کیا ہو ؟
نظریہ یا تہذیب ؟ یا نظریاتی تہذیب ؟ یا تہذیبی نظریہ ؟
نظریات ہی دراصل ۔۔۔ تہذیب کی بنیاد ہیں ۔۔۔۔ حالیہ دور میں ۔۔۔ دنیا کو ہم دو تہذیبوں کے دائرے میں پرکھتے ہیں ۔۔۔ مشرقی یا مغربی ۔۔۔۔ اگر یہ دونوں محتلف نہ تھے تو ۔۔ مشرقی و مغربی معاشرے کا فلسفہ وجود میں نہ آتا ۔۔۔۔۔۔ لہذا یہ ثابت ہوا چونکہ فلاں عمل مشرقی معاشرے میں برپا ہوا ۔۔۔ تو اس کا ردعمل مشرقی تہذیبی اساس پر ہی پیش آئے گا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ۔۔ مشرقی معاشرے کی اساس اخلاقیات کا سب سے بڑا مدرس ہے ۔۔۔ تو اس کا دوسرا پیمانہ اخلاقیات کہلائے گا ۔۔۔۔
گویا کہ ۔۔۔ فلاں عمل ۔۔۔ مشرقی تہذیبی نظریات کا عکاس ہے یا نہیں ؟ ۔۔۔
میں یہ سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں فلاں عمل کے صحیح یا غلط ہونے میں ۔۔۔۔ آسمانی نظریات پر بحث کیوں شروع ہوگئی ؟ ۔۔۔۔ کیا اب مشرقی تہذیب کا دفاع بھی ایمانی خلل کہلائے گا ؟ یا اب تہذیب کا وجود ہی سرے سے مٹ چکا ہے ؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...