سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ ۔
شہیر شجاع
سائنس اور مذہب ۔۔ ہر دو کی ارتقاء کو قبول کرنے میں انسان کا رویہ ایک ہی جیسا ہے ۔ ۔۔۔ مگر انتہا میں ایک
بہت بڑا فرق ہے ۔۔ ۔۔
سائنس انسان
کے غور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔۔ جس میں یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں ۔۔ مختلف
لوگ اپنی تحقیقات پیش کرتے ہیں ۔۔ یعنی اپنا علم پیش کرتے ہیں ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ ۔۔۔ مزید لوگ آتے ہیں جو ان ہی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔ یعنی علم کی اعلی
سے اعلی شکل دریافت کرتے ہیں ۔۔۔ اس کا مطلب
یہ نہیں کہ ۔۔ پچھلی تحقیق کا خالق ناکارہ تھا ۔۔ بلکہ اس کا مقام اس کی عزت و احترام بھی ساتھ ملحوظ خاطر رہتا
ہے ۔۔۔ مگر تاج اسی کے سر بیٹھتا ہے جو تحقیق
کو ایک کمل شکل دے ۔۔۔ مگر یہ بھی ہے کہ سائنس
میں ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحقیق مکمل ہو ۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔۔ ۔
مذہب
میں صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔ یہ علم آسمان سے اللہ کی طرف سے انسان کے لیے آتا ہے
۔۔۔ اور اس کا ذریعہ اللہ جل شانہ ۔۔ انہی انسانوں میں سے ایک انسان کو منتخب فرماتے
ہیں ۔۔ جسے تمام انسانون میں اعلی و ارفع کرتے ہیں ۔۔۔ اور اسے نبی و رسول اللہ ۔۔ کا نام یا مقام دیتے ہیں۔۔ اور ان
کے ذریعے سے وہ علم دنیا کے دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔
ہر دو میں انسان کے دو مختلف رویے رہے ہیں ۔۔ سائنسی
تحاقیق میں ہر اول محقق کا نام و مقام باقی
رہتا ہے ۔۔ لیکن ساتھ ہی ۔۔ نئے محقق کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اسے نسبتا زیادہ
سراہا جاتا ہے ۔۔
جبکہ مذہب کے معاملے میں ہر نئے علم کے
لانے والے کو انسان رد کرتا آیا ہے ۔۔۔ اور اصرار یہی رہا کہ جو پہلے علم لانے والا
تھا وہی برحق تھا ۔۔
موسی علیہ السلام کے ماننے والوں نے عیسی
علیہ السلام کو رد کیا ۔۔ عیسی علیہ السلام پر یقین رکھنے والوں نے محمد الرسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا ۔۔۔ بس وہی کامیاب رہا ۔۔ جس نے علم کو علم سمجھا ۔
۔ اور علم کی ارتقاء کو قبول کیا ۔۔
ماخوذ از ۔۔۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب