Wednesday, April 30, 2014

وطنیت یا دھرتی ماں کا تصور




محمد شہیر شجاع 

سرحدی خطوط میں گھرے خطہ ارضی کو  وطن کا نام دیا جاتا ہے  ، اور ان خطوط پر  اس خطے کی دفاعی افواج تعینات ہوتی ہیں ، جو بیشک دشمن کا قلع قمع کرنے کے لیے ہمہ تن تیار رہتی ہیں ۔ عموما سرحدوں کے باہر کی دنیا دوستوں میں شامل نہیں ہوتے ۔ ان سے ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں ۔  جو کہ  خطوط میں بسے انسانوں میں جذبہ وطنیت جسے عرف عام میں جذبہ حب الوطنی کہا جاتا ہے اسے خوب  رگ و پے میں بس جانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اور یہ جذبہ رنگ ، نسل ، قبائلی  و لسانی جذبے سے بھی اعلی و ارفع درجہ اختیار کر جاتا ہے ۔  جس بنا پر اکثر ایک ہی قبیلہ ایک ہی وقت میں دوست و دشمن کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔
اس جذبے کو مزید ابھارنے  اور نفرت کے الاو کو مزید بھڑکائے رکھنے کے لیے  وطن کی مٹی کا درجہ نہایت  ہی مقدس   و متبرک  کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔۔۔۔ جو کہ آگے چل کر ۔۔۔ دھرتی ماں  ، یا وطن کی مٹی میری ماں کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے  ۔ میرے خیال میں یہ شدت پسندی کی جانب میلان  کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ جہاں شدت پسندی آجاتی ہے وہاں عقل  شدت کے تابع ہوجاتی ہے ۔۔۔ سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیتیں مفقود ہوجاتی ہیں ۔۔۔ انسان کی سوچ کا پیمانہ  شدت  کے تابع ہوجاتا ہے ۔ دوست دشمن کی  کی پرکھ  ان خطوط پر منحصر ہوجاتی ہے ۔  جس وجہ سے اکثر ایک ہی قوم کئی حصوں میں بٹی ہوئی صاف دکھائی دے سکتی ہے  ۔

دھرتی ماں کا  تصور اس لیے بھی فاسد  ہے ۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔  ماں ایک مقدس ترین ہستی ہے ۔  جتنی توقیر ماں کی ایک گورے کو ہوگی اتنی ہی کالے کو ہوگی ۔۔۔ جتنی عزت ایک مسلمان کے دل میں ہوگی اتنی ہی عزت غیر مسلم کے دل میں بھی ہوگی ۔۔۔۔  چنانچہ ماں جیسی ہستی کے ساتھ  کوئی بھی شخص  ذرہ برابر بھی برا کرنا تو کیا برا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔۔ چاہے وہ اپنی ماں ہو یا دوسرے کی ماں ہو ۔۔۔ اگر زمین کا درجہ یکسان طور پر ہر فرد کے لیے ماں کے درجے پر قرار دیا جائے تو  دنیا میں  ضرور بالضرور امن قائم ہوجائے ۔۔۔۔ سلطان سلیمان آل عثمان  کے دور میں صلیبی و یہود تک  کی زبان سے یہ الفاظ پھسل جاتے تھے کہ ۔۔۔ اب شاید دنیا میں امن سلطان سلیمان کی وجہ سے قائم ہوجائے ۔۔۔  اس نے  یورپ   میں جس طرح سے اپنا تسلط اور اپنی دھاک قائم کی تھی اس کی مثال ملنی ممکن نہیں ۔۔۔ نہ ہی آج اس کے نسبی رشتوں میں  اس کی تاریخ دہرانے کا عزم پایا جاتا ہے ۔۔۔  شاذ و نادر مثالیں ضرور مل جائیں گی۔
جبکہ  مزید غلامی در غلامی کو قبول کر کے  اس بات کو مزید تقویت ملتی ہے کہ ۔۔۔ زمین گر ماں  کے  مساوی ہوتی تو اس کی عزت و توقیر کو دنیا میں ہر شخص و ہر صاحب اقتدار  اوج کمال پر پہنچانے کی جستجو میں رہتا  ۔

محکوم ، مسائل میں الجھا دن رات صرف اسی کوشش میں مصروف ہے کہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر لے ، اور حاکم  کی تگ و دو محکوم کے مسائل میں اضافہ کرتے جانا تاکہ وہ سر ہی نہ اٹھاسکے ، ہمیشہ الجھا ہی رہے ۔   دھرتی ماں کا خیال ۔۔ خیال غائب ۔۔ کی مانند غائب۔
آج کے انسان کے لیے چھوٹے چھوٹے احساسات بہت ہی معنی رکھتے ہیں ، اور ان احساسات کے تار چھیڑ  دیں تو یہ جال میں آجائیں  اور مدہوش  ایسے کے دنیا و مافیہا کی کوئی خبر ہی نہ ہو ، گر ہو بھی تو اس سے کوئی غرض ہی نہ ہو ، گر غرض ہو بھی تو  عمل کی قدرت نہ ہو۔ 

قومیں زمینیں  آباد کرتی ہیں ، ان میں تہذیبوں کی آبیاری ہوتی ہے ، تمدن  کی شاخیں پھلتی پھولتی ہیں ، اس خطے سے تہذیب کی پہچان ہوتی ہے ۔ خطو ط سے تو قومیں تقسیم ہوجاتی ہیں۔

اس بابت  اقبال کا مشہور زمانہ ترانہ یاد آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ چین و عرب ہمارا ۔۔ ہندوستاں ہمارا  ۔۔۔ مسلم ہیں ہم وطن ہیں  سارا جہاں ہمارا ۔۔۔۔ بس میرا نظریہ بھی  اقبال سے  اتفاق کرتا ہے ۔
ہائے ۔۔۔۔۔ یہ درد مند دل کہاں  گم ہوگئے ۔





فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...