Showing posts with label کراچی. Show all posts
Showing posts with label کراچی. Show all posts

Wednesday, March 22, 2017

ایم کیو ایم اور آج کا سیاسی منظر نامہ

ایم کیو ایم اور آج کا سیاسی منظر نامہ
شہیر شجاع
ایک نوجوان تعلیم یافتہ لڑکا کراچی کی لسانی جماعت کے جھانسے میں آگیا تھا ۔ جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ گلی محلے کے افراد کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ جس کے لیے اسے وہ جماعت موزوں نظر آئی ۔ جس کا نعرہ اس کے دل کو چھو گیا ۔ اور وہ اپنی شمولیت کے ساتھ اپنے تئیں ان افراد کی فلاح کے کاموں میں جت گیا جو استحصال کا شکار تھے ۔ دن میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتا شام میں پارٹی کے ساتھ مل کر عملی کام کرتا ۔ جلد ہی وہ یونٹ انچارج کی سطح تک پہنچ گیا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔ اسنے دیکھا کیسے کیسے مال بنایا جاتا ہے ؟ کیسے نوجوانوں کو تباہ کرنے کے پلان تشکیل دیے جاتے ہیں؟  وہ تو ایک مثبت مقصد لیے اس جماعت میں شامل ہوا تھا ۔  آہستہ آہستہ پارٹی کے منفی عناصر کے ساتھ اس کی چپقلش رہنے لگی ۔ اس کی پہنچ اب تک اعلی سطح کے کارکنان سے نہ ہو پائی تھی ۔ جبکہ اس کے ساتھ چند ایسے افراد بھی تھے جو دہشت گردی میں ملوث تھے ۔ جن کو احکام "اوپر" سے ڈائریکٹ ملا کرتے تھے ۔ ایسے افراد اس کے خلاف ہوگئے ۔ اکثر مقامات پر جہاں وہ منفی سرگرمیوں کی مخالفت کرتا وہاں خمیازہ بھی اسی کو بھگتنا پڑتا ۔ کسی موقع پر اس کی نوک جھونک ایک دہشت گرد لڑکے سے ہوگئی ۔ اس نے اونچی سطح پر اس کے خلاف جھوٹی رپورٹ کردی کہ فلاں لڑکا  پارٹی کے خلاف جا رہا ہے ۔ اس سے پارٹی کو خطرہ ہے ۔ وہ بھائی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اس کے خلاف احکامات "نازل " ہوگئے ۔ دن دیہاڑے  وہ غائب ہوا اور رات کے کسی پہر اس کی لاش برآمد ہوئی ۔ جس پر چٹ لگی تھی ۔ " جو قائد کا غدار ہے ، وہ موت کا حقدار ہے " ۔ اور ایک مخلص نوجوان "قائد سے غداری کی بھینٹ " چڑھ گیا ۔
اس جماعت کو اور فی زمانہ اس کے ووٹرز کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ ایک نوجوان کی نہیں پوری نسل کی کہانی ہے ۔  جو تباہ و برباد ہوئی ۔ آج جو حال اس جماعت کا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ لوہا گرم ہے کراچی کو منظم کیا جا سکتا ہے ۔ کراچی کو اس کے اصل جوہر میں واپس لایا جا سکتا ہے ۔ مگر جس سیاسی رویے کے ذریعے کوشش نظر آرہی ہے وہ ایک ڈرامہ ہے ۔ کوئی چاہتا ہی نہیں ہے کراچی اپنے جوہر میں واپس آئے ۔ یہ ایک سونے کی چڑیا ہے جسے دو بڑی جماعتیں استعمال کرتی آئی ہیں اور کر رہی ہیں ۔ وہی انہیں پالتی پوستی ہیں ۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو کونپلیں کاٹ کر دعوائے پارسائی کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان مضبوط جڑوں سے پھر کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں ۔ پھر دعووں اور نعروں کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ تیس پینتیس سال سے چل رہا ہے ۔  

Friday, July 1, 2016

کراچی اور موت



کراچی اور موت 

شیر

ابھی حال ہی میں ایک عزیز دوست سے بات ہو رہی تھی ۔۔۔ بڑے دکھی تھے ۔۔۔ جدہ میں رہتے ہیں ۔۔ کہہ رہے تھے کراچی سے ایک دوست ان سے ویزے کی درخواست کر رہے تھے ۔۔ حالانکہ صاحب حیثیت تھے ۔۔۔ سبب دریافت کرنے پر انہوں اتنا ہی کہا کہ حالات ٹھیک نہیں ۔۔۔ اب پاکستان میں ہر شخص حالات ٹھیک نہیں کی وجہ سے ہی باہر نکل جانا چاہتا ہے ۔۔۔ سو کراچی والے صاحب کی بات کو وہ عام سمجھے اور بہت زیادہ تشویش نہیں سمجھا ۔۔۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے بعد ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی زوجہ محترمہ نے فون اٹھایا ۔۔۔ صاحب کی بابت دریافت کرنے پر ان کی آواز رندھ گئی ۔۔ کہنے لگیں ان کو ایم کیو ایم کی جانب سے کچھ عرصے سے بھتے کی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔۔۔ اب حالات ایسے نہ تھے کہ بھتہ دیا جا سکتا ۔۔۔ تاخیر پر قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔۔پچھلے ہفتے انہیں سر پر گولی مار دی گئی ۔۔۔۔ مقدمہ وہی نامعلوم افراد ۔۔۔ اب تو جیسے ہم سڑک پر ہی آگئے ہیں ۔۔ دوست کا رنگ فق ۔۔۔۔ تسلی دلاسہ دے کر فون رکھا ۔۔۔ اور ان کے بیٹے کے لیے ویزے کا بندوبست کیا ۔۔ اللہ جزائے خیر دے ۔۔۔ ابھی اس واقعے کو سنے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ کراچی کی زمین ایک "معلوم" شخص کو نگل گئی ۔۔۔ جس پر بھی سیاست ۔۔۔۔ بلکہ " عصبی سیاست" شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔
میرا وطن پاکستان اور پھر کراچی میرا گلشن ۔۔۔ کیا ہمارے ضمیر نے ہماری عقل نے یہ سارا منافقانہ کلچر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے ؟
کیا اسی طرح ۔۔۔ لیڈر و ملا کی اقتداء محض جذبات کی بنیاد پر ہم نے جاری رکھنی ہے ؟
امام غزالی نے ایک حدیث نقل کی ہے ۔۔۔۔ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اگر وہ درست ہو تو سب درست ہوجائیں اگر وہ بگڑے ہوں تو سب بگڑ جائے ۔۔۔۔۔ ایک امراء و حکام دوسرا فقہاء ۔۔۔۔ ہم تو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، یہ دونوں بگڑے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کی مزید تشریح کروں تو بگڑے ہؤون کے پاس اختیارات ہیں ۔۔۔۔ کیا نہیں ؟
شاید کہ مدہوشی سے ہم انگڑائی لیں ۔۔۔۔ اور کتنا لہو ہم ان امراء و فقہاء کی قلبی تسکین کے خراج میں ادا کریں گے ؟

Saturday, March 12, 2016

مصطفی کمال کی آمد

مصطفی کمال کی آمد 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے پنجاب میں اپنے پنجے گاڑنے کی سر توڑ کوشش کی ۔۔۔۔ اسٹریٹیجی ان کی " میاں صاحب" کی ذات کو نشانہ بنانا رہی ۔۔۔۔ جس بنا پر وہ ہنجے کیا جماتے ۔۔۔ مزید نفرتوں کو پروان چڑھا گئے ۔۔۔
اور اب اسی اسٹریٹیجی کے ساتھ " مصطفی کمال " صاحب میدان میں آئے ہیں ۔۔۔ دعوی یہ ہے کہ ۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی انکھیں کھولیں گے ۔۔۔
سیاسی اسٹریٹیجی کے بنانے میں سب سے اہم ۔۔۔ سماج کا مطالعہ ہے ۔۔۔۔ جو کہ ہمارے کسی سیاستدان میں نظر نہیں آتا ۔۔۔
اگر اسی طرح ایک " معتقد " سماج میں ۔۔۔ اپنے مخالف کی ذات کو ٹارگٹ کرکے کامیابی کے خواب دیکھنے ہیں تو ۔۔۔ انہیں پہلے سے پیشتر واپس چلے جانا چاہیے ۔۔۔۔ کیونکہ اس طرح سے تفریق در تفریق تو جنم لے سکتی ہے ۔۔۔۔ مگر تعمیر نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔
مزید یہ کہ ۔۔۔۔ وسیم آٖتاب صاحب نے جو پریس کانفرنس کی ۔۔۔ اگر وہی اس نئی جماعت کا بیانیہ ہو جائے تو ۔۔۔ پاکستان کو بہترین راہنما میسر آسکتے ہیں خصوصا ۔۔۔ اردو بولنےوالوں کو ۔۔ 

Saturday, May 31, 2014

کراچی کے راہزنوں سے خطاب

 
 
کراچی کے راہزنوں سے خطاب؎
 
شہیر
 
صبح دن چڑھے  جب آنکھ کھلتی ہے تو تمہارے ذہنوں میں یہ خیال نہیں آتا ہوگا کہ  میں آج روزی روٹی کی تلاش میں کونسا روزگار تلاش کروں کہ میرا آج اور میرے آنے والے کل کے لیے راہ ہموار ہوجائے ۔    کس رستے جاوں کے میرے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں اور رب تعالی کے حضور  شرمندہ ہونے سے محفوظ ہوجاوں ۔   میرا معاشرہ مجھ پر فخر کرے  اور میری وجہ سے اس معاشرے میں انقلاب آجائے ۔ مجھ میں اتنی قوت ہے کہ میں سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں سڑک کے بیچوں بیچ  راہ چلتے  عام سے آدمی کے کپڑے تک اتروا سکتا ہوں تو اس قوت کو میں  اپنی طاقت بنا لوں اور اپنے جیسے نوجوانوں اور ان نوجوانوں کے لیے بھی جو میرے ہاتھوں اپنا دھن لٹوا ڈالتے ہیں جو مجھ سے کمزور ہیں  اور بیشک بڑی تعداد مجھ سے بھی زیادہ طاقتور ہوگی جن کے ملاپ سے  اپنے راستے خود متعین کروں ،  روزگار خود چل کر میرے راستے میں بچھ جائیں ۔  اور میں تمام بے کس  و ناداروں میں اسے تقسیم کروں ، دہشت کی علامت ہونے کے بجائے ان کا مسیحا ہو جاوں۔
گر واقعی ایسی سوچ نہیں در آتی   
تو
ان   چوروں لٹیروں ڈاکووں کو کیوں نہیں لوٹتے جنہوں نے تمہیں اس درجے تک پہنچنے پر مجبور کیا  ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...