اعزاز و معزز
شہیر شجاع
پہلی صف میں کھڑا وہ
اطمینان سے نہیں بیٹھ رہا تھا ۔
مسلسل متحرک ۔۔۔ لطف یہ کہ اسے کوئی منع بھی نہیں کر رہا تھا ۔ جیسے کہیں اس کے
ذہن کے گوشوں میں تکبر کا عنصر موجود ہو ۔
یہ روز کا معمول تھا ۔ علم ہوا وہ
بچہ امام صاحب کے بیٹے ہیں ۔کالج
میں پانچ لڑکوں کی ٹولی یوں گھومتی جیسے یہ کالج نہ ہو غلاموں کی بستی ہو ، اور وہ
ان کے آقا ۔ ان پانچ میں ایک نمایاں ہوتا ۔ بقیہ گروہ کے لڑکوں کا طرز عمل اس کو
عالیجاہ سمجھنے اور سمجھانے میں بالکل بھی دھوکا نہیں کھا سکتا تھا ۔ معلوم ہوا وہ
کالج کے پرنسپل کا لڑکا ہے ۔ اسی طرح مزید بھی کئی ٹولیاں ہوتیں ، سننے میں آتا کہ
فلاںمجلس شوری کے ارکان( ایم این ایز)کی اولاد ہیں ۔ جب کالج و جامعہ سے فراغت کے بعد در در کی ٹھوکروں کی جزا میں ایک نوکری
نصیب ہوئی ۔ ہر موقع پر احساس دلایا جاتا کہ ، تم بے اختیار ہو ، اپنے دماغ کو کام
میں لانے کی ضرورت نہیں ۔ بس احکام بجا لاو ۔ ہر ہر موقع پر عزت نفس کا مجروح ہونا ، احساس تذلیل بڑھا جاتا ۔ اپنے
آپ سے کراہت شدید کراہت محسوس ہونے لگتی ۔ بازار جاتا تو دکاندار ایسی چبھتی نظروں
سے دیکھتا جیسے میں کوئی کریہہ صورت بھکاری ہوں ۔ جبکہ میں سودا اتنا ہی لیتا جتنے
میرے پاس پیسے ہوتے ۔ اگر کم پڑجاتے تو سامان کم کروالیتا ۔ جس وجہ سے دکاندار کی
" چار باتیں " بھی کڑوے گھونٹ پی لیتا ۔ بجلی کا بل جمع کروانے جاتا ،
سخت دھوپ میں طویل قطار ، کئی گھنٹے بعد کھڑکی کے سامنے میرا چہرہ ہوتا ۔ بل جمع
کرنے والا یوں مخاطب ہوتا جیسے وہ میرا بل جمع کر کے مجھ پر احسان کر رہا ہو ؟ کیا
واقعی ؟ میں سوچتا ! مہینے بھر میں نے
بجلی استعمال کی ، خواہ دن میں چند گھنٹے
استعمال کی مگر کی ، بل کم ہے یا زیادہ ، ادا کرنا ہی ہے ، مجھ جیسے کریہہ انسان کی بجلی والی کمپنی
کیونکر مدد کرے گی ۔ لیکن جب میں وہ بل ادا کرنے گیا ہوں تو مجھے اتنی عزت تو ملنی
چاہیے کہ میں ان کا " معزز صارف
" ہوں ۔ جب بھی بجلی کے بل پر لکھا معزز صارف دیکھتا ہوں ، تو معزز کے الفاظ
ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں ۔ آخر ایک دن میرے دل کا سارا غبار نکل ہی گیا ۔ جب میری ملاقات اس خوبرو
نوجوان سے ہوئی ۔ جو میڈیکل یونیورسٹی میں
صرف اس لئے نکال باہر کیا گیا کیونکہ وہ فیس نہیں ادا کر پایا تھا ۔ اس کے بعد اس نے وہ راستہ اختیار کیا جہاں وہ
بااختیار تھا ۔ روپیہ پیسہ ، گھر بار ، رعب دبدبہ سب کچھ تھا ۔ عزت تو نہ پہلے تھی
نہ اب ہے ۔ مجھے اس کا راستہ پسند آیا ۔اسے اگلے دن ملنے کا کہا ۔ رات بھر سوچتا
رہا ۔ کروٹیں بدلتا رہا ۔ بہت سے خیالات ، افکار ذہن کے پردے پر چلنے لگے ۔دن سے
رات تک جتنے عوامل کا مجھے سامنا ہوتا ، ان کا تجزیہ ہوتا رہا ۔ اور بالآخر فیصلہ
میرے پاس تھا ۔ کب آنکھ لگی کب صبح ہوئی پتہ نہ چلا ۔ اگلے دن وقت مقررہ پر میں اس
کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ اس کی منزل تو شاید جیل ہی تھی ، یا کسی پولیس مقابلے میں
نعش ہوجانا ۔ مگر میں نے اس سے بھہی آگے
جانا تھا ۔ " معزز " ہونا تھا ۔ سیاستدان ہونا تھا ۔
No comments:
Post a Comment