قدرتی
تقاضہ
شہیرشجاع
دنیا کے حالات انسانی زندگی کی کشمکس کی بنا پر نمو پذیر
ہوتے ہیں ۔ قومیں سنورتی ہیں ، سنور کر بگڑتی ہیں ۔ بگڑ کر سنورتی ہیں ، تہذیبی
اختراع ایک تمدن کی شکل اختیار کر لیتا ہے
۔ اور اسی تمدن سے تہذیب بتدریج مٹ جاتی ہے ، اور کوئی نئی تہذیب یا تہذیبی ملغوبہ
جنم لیتا ہے ۔
بخت نصر کی طرز حکمرانی بدرجہ ہولناکی کے بعد قدرتی تقاضے کے امر پر "سائرس" کا ظہور ہوتا ہے
۔ سائرس کے بعد امن و شانتی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ۔ ایک
مرتبہ پھر سکندر مقدونی کی صورت میں ایک آفت نمودار ہوتی ہے ۔ اور اس آفت کی موت
کے ساتھ ہی وہ ساری سلطنت پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔
ان ساری صورتحال کے درمیان جو غور کرنے کی بات ہے وہ ہے رعایا ۔ انسان
۔۔ کہ مسلسل استحصال کے دوران اس کے اندر
کے ایک بے چینی جنم لیتی ہے ۔ اور سکون کی
تلاش میں اس کی طبیعت سرگرداں ہوجاتی ہے ۔ زمین کا قدرتی تقاضہ یہی ہے کہ اب کوئی
نجات دہندہ کا ظہور ہو ۔ پھر کسی نبی کی
صورت میں یا شفیق فاتح کی صورت میں دنیا کا عمل آگے بڑھتا ہے تہذیبیں بنتی ہیں اور اس میں بگاڑ آتا ہے ، اور
پھر ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے ۔
اسی طرح آج کی دنیا
بھی سسک رہی ہے ۔ وہ کسی نئی تہذیب ، نئے
نجات دہندہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔
ہر طرف آہ و بکا ہے ۔ زندگی سسک رہی ہے ، تڑپ رہی ہے ۔ مگر یہ زمانہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ ہے
۔ اب نجات دہندہ کوئی اور نہیں ۔ بذات خود ہر انسان ہے ۔ آج کا انسان بالغ نظر ہے ۔ عقلی طور پر مستحکم
ہے ۔ اس کے پاس ان عولم کا خزینہ ہے جو
پہلے نہ تھا ۔ آج کے انسان کی طاقت علم ہے ۔
مگر اخلاص و قبولیت ، سچ و جھوٹ کی تمیز میں خود تراشے ہوئے بتوں سے باہر نکلنا بھی ضروری
ہے ۔ اور یہی آج کا قدرتی تقاضہ ہے ۔
No comments:
Post a Comment