وہ بستر پہ لیٹا یک ٹک چھت گھور رہا تھا ۔ ذہن متلاطم تھا ۔ دل بے
چین تھا ۔ جوں جوں وصل کالمحہ قریب محسوس ہو رہا تھا ، اک نیا کرب انگڑائی لینے
لگا تھا ۔ اس نے جو وصل کی دعائیں مانگی تھیں ، راتوں کی تنہائی میں رویا تھا ،
گڑگڑایا تھا ۔ مجمع میں بھی تنہا تنہا سسکتا تھا ۔ وصل کی تمنا میں پل
پل تڑپا تھا ۔ خوابوں میں وصل کو فصل گلوں میں مہکتے ، چہکتے محسوس کرتا تھا ۔ اس
خوشبو کو بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے گھونٹ گھونٹ سانسوں کے ذریعے روح
کو سرشار کیا کرتا تھا ۔ اب جب وہ لمحہ قریب تر تھا ، کرب کی سسکی نے اس کے
اند رہلچل مچا دی تھی ۔ اس نے اپنے آپ کو سمیٹا ۔ چادر کھینچ کر سر تک ڈھانپ
لی ۔ نیند آہستہ آہستہ دستک دینے لگی ۔
وصل و فراق باہم بغلگیر ہورہے تھے۔
شہیر
No comments:
Post a Comment