Sunday, March 23, 2014

ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب

ادب برائے ادب " یا " ادب برائے زندگی
محمد شہیر شجاعت

فلسفی کہتے ہیں ۔۔۔  کہ غیر مادی چیزوں پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ برہان کے مقدمات کے لیے شرط ہے کہ وہ مادی ہوں ۔۔۔ اور ان پر جو بھی حکم لگایا جائے گا وہ محض ظنی و قیاسی ہوگا ۔۔۔۔ اگر اس قدر مشقت کے بعد بھی ہمیں ظنی علم حاصل ہوا تو ایسے علم کا کیا فائدہ ؟۔ ایسی صورت میں ظن واحد پر ہی یقین کر لینا چاہیے ۔۔۔ جبکہ ہمارا مقصد ماوراء الحس موجودات کا یقین حاصل کرنا ہے ۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان دو اجزاء سے مرکب ہے ، جسمانی و روحانی جو جسمانی حصہ کے ساتھ مخلوط ہے ۔۔ ہر ایک جز کے خاص مدارک ہیں ۔۔ اور ان دونوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے روحانی جز ۔۔۔۔ یہ کبھی روحانی مدارک کا ادراک کرتا ہے کبھی جسمانی کا ۔۔۔۔ فرق یہ ہے کہ روحانی کا ادراک بلاواسطہ ہوتا ہے جبکہ جمسانی کا جسم کے آلات و دماغ و حواس کے ذریعے ۔۔۔۔ ہر مدرک کو اپنے ادراک سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے ۔۔۔
 
 ادب برائے ادب کا قائل بالواسطہ ادب برائے زندگی کا ہی قائل ہوتا ہے ۔۔۔۔ تو کیوں نہ اس کو نہ چھیڑتے ہوئے ادب کو "ادب " تک ہی محدود رہنے دیا جائے ۔۔ اس طرح سے ادب اپنی وسعت میں لا محدود رہے گا ۔۔۔۔۔ اس کی حد بندی نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔ اب تک کے مطالعے سے میرا تو یہی ماننا ہے ۔۔۔ شاید مجھے بھی کوئی قائل کرلے کے ادب کو بھی محدود ہونا چاہیے ۔۔۔ چہ جائیکہ حدود کا تعین کرنے کے باوجود ۔۔۔۔ اس پر قائم رہنا اور رکھنا ۔۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے ۔۔۔
بہر حال ۔۔۔ اگر ادب برائے ادب کا قائل مجھے سے سوال کرے گا تو وہ مجھے ادب برائے زندگی کا قائل پائے گا  ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...