Tuesday, August 3, 2021

Divide and Rule

 

آئی جی پولیس افضل شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا ، دو پلاٹ اپنی بیگم ، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے ۔ یہ وہ پلاٹس ہیں جو پولیس شہداء کے خاندانوں کی ملکیت ہونے تھے یا ان سے متعلق تھے ۔ ان پلاٹس پہ شوکت عزیز  کا نام بھی ہے ۔ اور بھی کئی نام جو کل رؤوف کلاسرہ نے اپنے کالم میں ذکر کیا ۔

ایک جانب ہم اپنے اقدار و تہذیب کی بات کرتے ہیں ، مساوات کی بات کرتے ہیں ، مرد و عورت کے درمیان مقابلہ بازی کرتے ہیں ، خصوصا وہ پسا ہوا طبقہ جو پاکستان کاسب سے بڑا طبقہ ہوگا  جس کو مکمل غذا  بھی میسر نہیں  ہوتی، نہ یہ نظام تعلیم اسے کوئی مقصد زندگی فراہم کرسکا ہے ،سوائے اس کے کہ ڈگری لو اور نوکری(غلامی) تلاش کرو ۔ بابووں کے پیر پکڑو ۔ سفارشیں تلاش کرو ۔ ایک ایسا نظام زندگی اس زمین کے لوگوں کو مہیا کیا گیا ہے جہاں وہ  جھوٹے تصورات  یا زعم میں جی رہے ہیں ۔ وہ بیک وقت احساس کمتری ، خود ترسی  کا بھی شکار ہیں اور یہ زعم بھی پال رکھا ہے کہ ان سے برتر کوئی نہیں ۔ زعم دانش سے لیکر پارسائی تک  ، ایسا کیا ہے جو ہمارے جسموں میں خون بن کر نہ دوڑ رہا ہو ۔ ایسے میں جب اس طبقے سے کوئی اوپر پہنچتا ہے تووہ جہاں بھی پنیر بٹ رہی ہو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا چھینتا ہے یا چراتا ہے ۔ 

پھر یہ اشرافیہ جن کا بچہ جو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتا ہے وہ بھی کیوں اس دوڑ میں صف اول میں جگہ بناتا ہے ؟ برانڈڈ اسکولوں میں پڑھ کر ، برانڈڈ طرز زندگی جی کر جب وہ "سول سرونٹ" یا بااختیار ہوتا ہے تو "بابو" بن جاتا ہے اور اسے آس پاس کی بستیوں سے گھن آنے لگتی ہے ۔ اس کو صبح چائے پلانے والے " چاچا خیر دین " ، ان کو اس سے کچھ فاصلے سے ملنا ہوتا ہے ۔ چوری کرنا یا قانون توڑنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ دوسروں کاحق  چھینتا ہے ،قتل کرتا ہے ، وائٹ کالر ڈاکے ڈالتا ہے، اور یہ سب وہ مکمل دلی اطمینان کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کا ضمیر اسے قطعی ملامت نہیں کرتا ۔

ایسے سماج میں جہاں گھٹن ، جبر ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے ، انسانیت سوز واقعات کا  تواتر کے ساتھ پیش آنا کوئی انہونے واقعات نہیں  ہیں ۔  اس جبر اور اس گھٹن کو لبرل فکر "مذہبیت " کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ اور مذہبی فکر "لبرل فکر " کو ۔  

یہاں بنیادی غلطی کہاں ہو رہی ہے ؟ اس جانب  ہماری کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ ہمارے لیے ظلم وہ ہے جو ہمارے نظریے کے مطابق ہے  ۔ یہاں کوئی واقعہ رونما ہوا "اور میڈیا کی زینت بنا " ہم نے  دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کردیے ۔ صفیں مرتب ہوگئیں  ۔ اور دونوں جانب جیسے دو فوجیں کھڑی  ہوں اور  ایک دوسرے کی جانب نیزے تن جاتے ہوں۔ اذہان میں موجود تصورات مزید شدت اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہیں مذہبیت نشانہ بنتی ہے تو کہیں لبرل  سوچ پر گولہ باری ہوتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ دراز ہے  اور رہے گا ۔  

کیونکہ ہمارا مسئلہ سماجی نہیں "ذاتی " ہے ۔ جس دن ہم من حیث القوم سوچنا شروع کردیں گے ہمیں مسئلے کی جڑ نظر آجائے گی ۔ کہیں یہ"ڈیوائڈ اینڈ رول" تو نہیں ؟

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...