آج
ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہم نے اسی رویے کو اپنا رکھا ہے ۔ تعمیر و تنقید
ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی تعمیر ہوگی تو تنقید بھی ہوگی ۔ اور تعمیر کے لیے تخلیقی
عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے ۔
معلوم
ہوتا ہے جب تخلیقی وفور نا پید ہوجائے تو تنقید کی جگہ تنقیص لے لیتی ہے اور
دیکھنے والی عینک شفاف نہیں رہ پاتی ۔ ایک ہٹ دھرمی مزاج کا حصہ بننے لگتی ہے ۔
اور مختلف فکری تعصبات ، انسان کو متشدد بنادیتے ہیں ۔
میں
اگر کسی تہذیب کا حامل ہوں تو اس کا اچھا برا ہر حصہ “ میں “ ہی ہوں ۔ اگر میں اس
میں سے چھانٹتا ہوں تو میرا بدن مکمل کیونکر ہوسکتا ہے ؟
جو
کل برا تھا اس سے تہی دامن ہونے کا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج بھی برا ہے ۔
جب میں نے اسے برا مان لیا تو گزرے کل کو اپنا کر اپنے آج کو اس سے پاک کرنا میری
ذمہ داری ہے ۔ جب میں اس کل سے ہی لاتعلق ہوجاوں گا تو یقینی طور پر آنے والا کل،
آج سے لاتعلق ہوسکتا ہے ۔ تو میں آج کو کس طرح مکمل تعمیر کرسکتا ہوں ؟
میرا
مستقبل کیونکر روشن ہوسکتا ہے ؟
کیا
یہ رویہ اپنی “ روایت “ سے کٹ جانے کی وجہ سے تو نہیں پیدا ہوا ؟
No comments:
Post a Comment