Saturday, February 11, 2023

شورش کاشمیری کا اداریہ

 

 

ایوب خان کے زمانہ استبداد میں شورش کاشمیری کا اپنے ہفت روزہ رسالے "چٹان " میں لکھا گیا  ... اداریہ ۔۔۔۔۔

" آخری چارہ کار"

یونان کا ایک نامور فلسفی جب عوام کی ناقدری سے عاجز آگیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کے فکر و نظر اور علم و حکمت پر لوگ توجہ نہیں دیتے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں اور اس پر پتھراو کرتے ہیں تو اس نے دشنام و اتہام سے تنگ آکر رقص و سرود کا ایک طائفہ بنایا ، پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا ، چہرے پر بھبھوت مل لی ، ہاتھوں میں کنگن ڈال لیے ، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور پاگلوں کی طرح بازاروں میں ناچنے لگا ، وہ رقص و غنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھا ، لیکن رسمی دانشوروں نے سر پراٹھالیا ۔ اس کے رقص پر محاکمہ ہونے لگا کہ اس فن میں نئی راہیں نکالی ہیں تب پاگل تھا  اب مجتہد ہے ۔

جب یونان میں اس کے اس نئے روپ کا شہرہ عام ہوگیا تو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن وہ اوپن تھیٹر میں اپنے طائفہ سمیت رقص و سرود کے نئے انداز پیش کرے گا ، تمام ایتھنز ٹوٹ پڑا ، اس نے رقص کا نیا انداز پیش کیا ، سرتاپا دیوانہ ہوگیا ناچ نہیں جانتا تھا لیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا ، عوام و خاص اور امرا و شرفا لوٹ پوٹ گئے ۔ جب وہ وتھک گیا اور محسوس کیا کہ جو لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اس کی مٹھی میں ہیں ۔۔۔ تو یکایک سنجیدہ ہوکر کہا :

" یونان کے بیٹو ! میں تمہارے سامنے علم و دانائی کی باتیں کرتا رہا میں نے تمہاری برتری کے لیے فکر و نظر کے موتی بکھیرے ، تم نے میری باتیں سننے سے انکار کردیا ۔ میرا مذاق اڑایا ، مجھے گالیوں سے نوازا ، پتھراؤ  کیا اور خوش ہوتے رہے ۔ تم نے حق و صداقت کی ہر بات سننے سے انکار کردیا ۔ مجھے پاگل قرار دیکر خود پاگلوں سی حرکتیں کرتے رہے ، تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دیے ۔ تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امراء و حکام کی جاگیر ہوگئی ہیں ۔ 

میں عاجز آگیا تو میں نے یہ روپ اختیار کیا ، میں فلسفی کی جگہ بھانڈ ہوگیا ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں ۔ لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسائے ، پہلے تم میں سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے ، آج انسانوں کا جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور ایک فنا ہوجانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کرلی ہیں تم ایک انحطاط پذیر ملک کی علیل روحوں کا انبوہ ہو ۔  تم پر خدا کی پھٹکار ہو تم نے دانائی کو ٹھکرایا اور رسوائی کو پسند کیا ۔

تم خدا کے غضب سے کیونکر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہوگیا ہے اور عیش  ، شرف و آبرو۔ جاو میں تم پر تھوکتا ہوں ، میں پہلے بھی پاگل تھا آج بھی پاگل ہوں ۔ "

 

جب علم و نظر اور فکر و معروف کہ یہ مرحلہ جانکنی پیش آجائے ۔ خوشامد کابول بالا  ہو اور حکمت و دانائی احمقوں کے گھرانے میں چلی جائے اور وہ اپنے دماغ کی علالت کو صحت کا نام دینے لگیں ۔ علم کے مالک جاہل ، ادب کے اجارہ دار گاؤدی ، سیاست کے متولی کاسہ لیس ، اور دین کے مسند نشین بکاو ہوجائیں تو اس فضا میں یونان کے فلسفی کی طرح  پاگل ہوکر ناچنا بھی عین عبادت ہے اور نہیں تو اس سے خدا کا غضب ہی ٹھنڈا ہوتا ہے ۔  

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...