Thursday, June 11, 2015

اراکان ۔۔ میانمار



اراکان ۔۔ میانمار

برما یا میانمار   کی وہ سرحد  جس کے بنگلہ دیش کے درمیان صرف سمندر ہے ۔۔۔ اس کا نام  اراکان ہے ۔۔ جہاں صدیوں سے مسلمان آباد ہیں ۔۔ یہاں ۔۔ خلیفہ ہارون رشید کے زمانے میں اسلام پھیلا یہاں تک کہ  یہاں کے بادشاہ نے بھی اسلام قبول کر لیا ۔۔۔ جس کے بعد اس ریاست  میں  اسلام نے کئی صدیاں گزاریں ۔۔ ہر قدم پر  جس کے نشانات وہاں عیاں ہیں ۔۔۔بیشمار مساجد و مدارس ۔۔ جگہ جگہ موجود ہیں ۔۔۔ جنہیں وقتا فوقتا ۔۔۔ 1930 سے اب تک  مٹا دینے کی ناکام کوشش جاری ہے ۔۔۔ 
1826 میں یہاں برطانیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حیثیت سے داخل ہوا ۔۔ بظاہر پر امن طریقے سے وہ برما اور اراکان میں حکومت کرنے لگا ۔۔ ساتھ ہی برمی بدھسٹوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کا عمل بھی جاری رکھا ۔۔۔ جس کے نتیجے میں  1930 میں پہلی قتل و غارت گری ہوئی  ۔۔ جس بنا  پر سینکڑوں مسلمان اپنی زمین سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔۔ جو  ہندوستان(بعد از پاکستان ، انڈیا و بنگلہ دیش ) ۔ ملائیشیا ، انڈونیشیا ، سعودی عرب و دیگر ممالک میں جا بسے ۔۔۔ برطانیہ 1937 تک ہی اس خطے میں راج کر پایا ۔۔ اور برما کو ایک آزاد و خود مختار خطے کی حیثیت سے تسلیم کر کے اسے جان اپڑا ۔۔۔ لیکن جاتے جاتے وہ اپنا کام کر چکا تھا ۔۔۔۔۔ جس بنا پر اراکان صوبے کے مسلمانوں  نے  پانچ سال بعد  1942 میں ۔ ڈیڑھ لاکھ جانوں  کے پہلے نذرانے کی صورت میں دیا ۔۔۔ گاجر مولی کی طرح انہیں کاٹا گیا ۔۔ جو  مسلمان لڑ سکتے تھے وہ لڑے ۔۔ مگر اس طوفانی ہوا کے سامنے بے سروسامان مسلمان کیا کرتے ؟ جو تلواروں کے نیچے زبح ہوئے  ان کی لاشیں گل سڑ گئیں اور جو بچ سکے انہوں نے قریبی ممالک میں  ہجرت کر کے پناہ لی  ۔۔
1978 میں  سب سے بڑا قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا ۔۔۔ جس میں بیس ہزار مسلمانوں کو زندہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ۔۔۔ ان کے گھروں ۔۔ بلکہ پوری پوری بستیوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا ۔۔ ان کی املاک چھین لی گئیں ۔۔۔ ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لیا گیا ۔۔۔  لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی بقا کے لیے جنگ کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں کہ بلکہ پر امن رہتے ہوئے ۔۔۔ ہجرت کرنے کو بہتر جانا ۔۔ 
    یہاں کے مسلمان ہمیشہ سے  بے ضرر  اور پر امن رہے ہیں  ۔ ان کی تاریخ میں کسی بھی جنگ میں شامل ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔۔  بلکہ وہ جن ممالک میں جا آباد ہوئے ۔۔ انہوں نے انہی ممالک   کی تہذیب میں اپنے آپ کو ڈھال لیا ۔۔ بلکہ ان کے اس  احسان کے بدلے اس سرزمین  کی بہبود کے لیے  اپنے آپ کو پیش کرتے رہے ۔۔۔ یہاں بھی قسمت نے ان کے ساتھ کھیل کھیلا ۔۔ ان کی شناخت روہنگیا  مسلمان کی حیثیت سے سامنے آنے کے بجائے انہیں اپنی شناخت سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔۔ جس بنا پر ۔۔ اراکان  سے ان کا رشتہ محض ماضی  کی صورت میں  رہ گیا ۔۔
وہاں بسنے والے مسلمان بنا حکومتی اجازت نامے کے نہ تو شادی کر سکتے ہیں اور نہ بچے پیدا کر سکتے ہیں ۔۔ یہاں تک کہ ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر بھی بلا اجازت ان کے لیے جرم ہے ۔۔۔  
1989 میں  برما (میانمار) کی حکومت  نے ایک قانون کے ذریعے  اراکان  کے باشندوں کی برمی شہریت یہ کہہ کر منسوخ کردی کہ  یہ لوگ بنگلہ دیشی  الاصل ہیں ۔۔ جبکہ  یہ ایک تاریخی حیققت کی خلاف ورزی ہے ۔۔  اور سونے پہ سہاگہ ۔۔ میانمار حکومت نے  اراکان کا نام تبدیل کر کے " راکھین " اس کا نیا نام رکھا ۔۔   اسی نوے سالوں سے مسلمان اور ان کی نشانیوں کو اس سرزمین سے مٹا دینے کی کوششوں میں مصروف  بدھسٹ ۔۔۔ اب تک ناکام ہیں ۔۔۔۔۔۔ دنیا کی ساری مسلم ریاستوں کے حکمران ۔۔ اپنے ذاتی مفادات  کی پوجا میں مصروف ۔۔   اپنے مغربی آقاوں کی خوشنودی میں  مگن ہیں ۔۔۔ جبکہ وہ روہنگیا مسلمان جو اپنی زمینوں سے ہجرت کر آئے تھے ۔۔۔۔ شاید وہ بھی اپنی زمینوں سے رشتے توڑ بیٹھے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...