وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
شہیر شجاع
سرزمین عرب کے ریگزاروں میں عجب
سرکشی و انسانیت سوز مناظر کا دور دورہ تھا ۔کہ مٹی مٹی بوٹا بوٹا پناہ مانگے ۔ کہ
اسی دوران ان کے درمیاں ایک نہایت باعظمت خاندان
میں ایک چشمہ پھوٹا ۔ جس نے اپنے پیدا ہونے سے چند ماہ قبل ہی یتیمی کا
تاج پہن لیا تھا ۔ عظمت کے لیے خالق کائنات
بہت سی پیچیدگیاں اپنے بندوں میں پیدا کرتا ہے ۔۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ
انسان کی عظمت رفتہ میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں ۔۔۔ وہ بچہ ابھی چند سال کا ہی تھا کہ مستقل یتیمی
کا تاج سر پر پہن لیا ۔ دادا کے ہاتھوں
تربیت کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔ پر یہ سایہ شفقت بھی تادیر قائم نہ رہ سکا ۔ اس کے بعد اس عظیم المرتبت بچے کے سر پر اللہ جل شانہ
نے چچا کا سایہ قائم فرما دیا ۔۔۔
اللہ جل شانہ کا کوئی بھی عمل بلا
مقصد و مصلحت نہیں انجام پاتا ۔۔ یہ بھی
ایک طریقہ تھا امت کو بتلانے کا ، رشتوں کی اہمیت کو جتانے کا ۔۔ تربیت کے اصولوں
کو باور کرانے کا ، محبت کی اہمیت اجاگر کرنے کا ۔
جو اپنی رضاعی ماں کے لیے اپنی چادر اتار کر زمین پر بچھا دیتا ۔ جو مہاجر ہو کر اپنی عظیم المرتبت بیوی ( رضی اللہ
عنہا ) کی قبر مبارک سے دور ہوتا ہے ۔۔ اور جب واپس اپنے وطن لوٹتا ہے تو ۔۔ وہ
راستہ منتخب کرتا ہے جہاں اس کی وہ عظیم بیوی آسودہ خاک ہے ۔
وہ عظیم المرتبت انسان ۔۔۔۔۔(صلی اللہ علیہ وسلم )
جب لوگوں کے پتھروں سے خونم خون ہوجاتا ہے ۔۔
تو ان کے دل سے پھر بھی کوئی بد دعا یا کلام بے فیض نہیں نکلتا ۔۔ بلکہ دعائیں اور اچھائی کی تمنا ہی ہوتی ہے ۔ وہ
حالت کمزوری میں روا رکھے گئے ظلم و ستم
کے علمبرداروں کو طاقتور ہونے کے بعد معاف کردیتا ہے ۔ وہ جو کالے اور گورے کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے
۔ عورت کا مقام بلند اور مرد کو اس کا
محافظ بناتا ہے ۔
جس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے
اسلام جیسی عظیم نعمت دنیا کو بخشی ۔ انسان کو انسان بنائے جانے کے لیے مبعوث ہوا ۔ جان کے پیاسوں کو بھائی بھائی بنا
دیا ۔ یہ اسی اسلام کا سرخیل تھا جس نے
انسانیت کا سب سے پہلا سبق دنیا کو پڑھایا ۔ جس نے دنیا کو ایک نظام دیا ۔ ٹھوس
معاشرتی نظام ۔ جس میں امیر غریب ۔ کمزور طاقتور سب کو برابر کا درجہ دیا ۔ انسانیت کیا ہے ؟ درحقیقت اسلامیت ہے ۔ جس دنیا کو غور و فکر کی دعوت دی
۔ اور اذہان کو اس بات پر راضی کیا ۔ وہ اذہان جن کو سوائے قتل و غارت کے ۔ عصبیتی
تناو کے اور کچھ نہ آتا تھا ۔۔ انہیں مفکر بنایا ، مدبر بنایا ، مقتدر بنایا ،
معلم بنایا ، سخی بنایا ، معاف کرنے
والا بنایا ، غرض ہر وہ صفت جو معاشرہ و
ریاست مرتب کرتی ہے ، غور وفکر ہر حال میں ان کا شعار ہوتا ہے ۔۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ وہ انسانوں میں عظیم انسان بنے ۔
جنہوں نے دنیا کو امن دیا ، زندگی کی رونقیں بخشیں ۔
وہ یتیم بچہ ایسا عظیم المرتبت
ہوا کہ رحمت اللعالمین ہوا ۔ جو اپنے وقت
کا عظیم سپہ سالار تھا ۔۔۔ جس کی سپاہ کے
پیٹ میں ایک ایک پتھر بدنھے تھے ۔ اپنے پیٹ میں دو پتھر باندھے ۔۔ فاقہ کشی کر رہا تھا ۔۔ جو سب
سے بڑا حکمران تھا ۔۔ وہ ٹاٹ کی چٹائی ،
مٹی کے گھروندے پہ سو رہا تھا ۔۔ وہ سراسر اسلام تھا ۔ جو دنیا کو انسانیت کا درس دینے آیا تھا ۔ جو
طریق حکمرانی ، طریق انسانی ، طریق زندگی سکھلانے آیا تھا ۔
جس نے سکھلایا کہ ۔۔۔ مسلم ہو یا غیر
مسلم ۔۔۔ اسلام کا درس انسانیت ہے ۔۔ سب کے ساتھ یکساں برتاو ہی کامیابی کا راستہ ہے ۔
ہمیشہ امت کے درد میں راتوں کو
جاگ کر اس کی مغفت و فلاح کی نہ صرف دعائیں کرنا ۔۔۔ بلکہ ہمہ وقت فلاح کے راستوں
کی رہنمائی پر کمر بستہ رہنا ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پل صرف امت کی بہبود و کامیابی کی سوچ و فکر میں صرف رہا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔ باہمی محبت ، ایثار و ہمدری و رواداری کی بیشمار مثالیں قائم کیں ۔
آج ہمیں اپنے اس عظیم الشان لیڈر صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت مطہرہ کے تناظر میں محاسبے کی ضرورت ہے ۔ شاید کہ آج
کے دن کو ہم منانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ محاسبہ تععین کریں ۔
No comments:
Post a Comment