اقبال نے کہا تھا ۔۔۔
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ہم اس عشق کی ابتداء تک بھی نہ پہنچ سکے ۔ پراپنی زندگیوں میں اپنی سوچوں اور اپنے برتاو میں انتہاوں تک پئنچ گئے ۔
فوری ردعمل ہمارے ہیجان کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور کسی بھی سوچ کی بنیاد پر ہم ہر عمل کو پرکھنے پر مجبور ہیں ۔
آج اس سوچ کی وجہ عمران خان کو قرار دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم ہر سطح پر انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔ خاندانی معاملات سے لیکر سماجی رویوں تک ہمارا رویہ انتہا پسندانہ ہے ۔
جہاں تک سیاسی وابستگی کی بات ہے ۔ اس وابستگی نے ہمیں اس سماجی فکر کا آئینہ دکھایا ہے ۔ میں ن لیگی دوستوں کی بات نہیں کروں گا کہ میں پی ٹی آئی کا سپورٹر ہوں تو میری بات اپنا ابلاغ نہیں کر پائے گی ۔پی ٹی آئی کے دوستوں کو لگتا ہے وہی محب وطن ہیں اور درست سوچ انہی کی عقل کو گوارا ہے ۔ اپنے مخالفین کے لیے سخت الفاظ کا استعمال ان کے ہاں عام ہے اور سب سے زیادہ جو مسئلہ گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ، وہ علماء کے لیے ان کی زبان ہے ۔ علماء پہلے ہی اپنا احترام نسبتا کھو چکے ہیں جس نے عوام کو ان سے بتدریج متنفر کیا ہے اور آج یہ صورتحال ہے کہ جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے ۔
اس کی ذمہ داری جمعیت اور جماعت اسلامی کے دوستوں پر بھی عائد ہوتی ہے اگر پی ٹی آئی خبط عظمت میں مبتلا ہے تو جمعیت و جماعتی " زعم تقوی " میں مبتلا ہیں اور ہم جاہلین و بد اعمالوں کے لیے ان کا رویہ نہایت افسوسناک ہے ۔ لہذا علماء و دیندار طبقے کے لیے دشنام طرازی عام سی بات ہوتی جا رہی ہے ۔
ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا کر ، مکافات عمل کہہ کر اپنے آپ کو دلاسہ تو دے سکتے ہیں ۔ مگر اس سے یہ توقع رکھنا کہ سماجی شعور ارتقاء پذیر ہوگا ایک دھوکہ ہی ہے ۔
No comments:
Post a Comment