سرمایہ دارانہ پروڈکٹ
شہیر
علم کی حیثیت ٹکوں کی رہ جائے گی کیسے سوچا جاسکتا تھا ؟ کبھی ماسٹر
، استاذ نے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔ محلے
کے بدنام ترین لوگ بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے ، اسکی زندگی عموما سادہ اکثر
کسمپرسی کی حالت میں ہی دیکھی گئی ۔ مگر اس کے چہرے پر اطمینان جھلکتا تھا ۔ احساس
ذمہ داری کی شکنیں اس کی پیشانی سے عیاں ہوتی تھیں ۔ جیسے سارے جہاں کا درد اس کے
سینے میں ہو ۔
ہم بچپن میں بڑوں سے پوچھا کرتے تھے تعلیم کی آخری حد کیا ہے ؟ ہمیں
بتایا جاتا ویسے تو کوئی حد نہیں مگر آخری ڈگری جو سب سے بڑی ڈگری کہلاتی ہے وہ
" پی ایچ ڈی " ہے ۔ اس وقت تو اس کے معنی کا بھی ادراک ممکن نہیں تھا ۔
مگر اس نام کا ایک رومان بسا تھا ذہن میں ۔ کہ جس شخص نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی
ہو ۔ اس کا ذہن کس قدر وسیع ہوگا اور اس کے سینے میں علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا
ہوگا ۔ کتنی دنیا اس سے مستفید ہوگی ؟ جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ، علم کے
معانی کا ادراک کچھ کچھ ہوتا گیا ۔ مگر ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک عظیم المیے سے بھی
سامنا ہوا ۔ جہاں علم کی حیثیت ارزاں ہوتی دیکھی ۔ جہاں ڈگریوں کو علم
کا مساوی درجہ دیا جانے لگا ۔ اور مقصد ڈگری کے معنی ملازمتوں کا حصول جانا گیا ۔
جتنی اعلی ڈگری اتنی اعلی " نوکری " ۔ یہ ایک ایسا تضاد تھا جو بمشکل
سمجھ آتا ۔ آج اس تضاد نے یہ دن بھی دکھایا کہ اعلی ترین ڈگری یعنی اعلی
ترین " علمی سند " رکھنے والے " نوکری" نہ ملنے پر
احتجاج کررہے ہیں ۔ اک آہ سی نکلتی ہے ۔ یہ کیسا علم ہے ؟ یہ کیسی سند ہے ؟
یا معاشرہ علم والوں سے متنفر ہوچکا محض " سرمایہ دارانہ پروڈکٹ" کا
طلبگار رہ گیا ہے ؟
No comments:
Post a Comment