معاشرتی ترقی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر شجاع
معاشرہ کئی اکائیوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے ۔۔۔ جس کی ایک
بہت ہی بنیادی اکائی ۔۔ مساوات ہے ۔۔۔۔ مساوات کے ضمن میں ۔۔ محنت کش طبقے کی بات
کرنا چاہوں گا ۔۔ جسے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ جس کی مزدوری کے لے سیاستدان سڑکوں پر نکلتا ہے ۔۔ دین اس کے
پسینے کے خشک ہونے سے پہلے اس کے مزدوری ادا کر دیے جانے کا حکم دیتا ہے ۔۔۔۔ محسن
انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ ایک محنت کش کے کھردرے ہاتھوں کو محسوس کر کے چوم لیتے
ہیں ۔۔۔ جس کی محنت کے بل بوتے پر انجینئر
اپنی تخلیق کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔۔ بہر حال یہ ایک سب سے
مضبوط اور قابل فخر اکائی ہوتی ہے ۔۔۔
ہم معاشرتی اصلاح ۔۔ کی تو خوب باتیں کرتے ہیں ۔۔ لیکن
وی آئی پی کلچر پر شاذ و نادر ہی گفتگو
ہوتی ہے ۔۔ کیونکہ تکبر ہم میں رچا بسا ہے ۔۔۔
چپراسی کو ہمارا معاشرہ جزوقتی
غلام کا مقام دیتا ہے ۔۔ جبکہ وہ محنت کر کے حلال روزی کما رہا ہے ۔۔۔ اسی طرح اس
معاشرے میں کئی ایسے کردار ہیں ۔۔ جو " کمینے " کہلائے جاتے ہیں ۔۔۔
میں ایک کمپنی میں ملازمت کیا کرتا تھا ۔۔ رمضان کا مہینہ
تھا ۔۔ پوری کمپنی میں ایک ہی لوڈر تھا ۔۔ اور دو ڈپارٹمنٹ تھے ۔۔مختصر یہ کہ ۔۔۔
اس سے زائد کام لینے پر میں نے احتجاج کیا تو ۔۔ میرے مینیجر نے مجھے جواب میں کیا
کہا " ۔۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ پورے ملز ایریا میں جا کر دیکھ لو ۔۔۔ سب سے زیادہ میں
ہی تنخواہ دیتا ہوں ۔۔۔
پتہ ہے کتنی ؟
پورے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو ہزار پانچ سو ۔۔
آآآآآآآاااہ ۔۔۔
یہ دس سال پرانی بات ہے ۔۔۔ پر دو ہزار پانچ سو کی اس
وقت بھی کیا اوقات ہوگی ۔۔ جب حکومت کی طرفسے کم سے کم تنخواہ چھ ہزار مقرر تھی ۔۔
میری ان صاحب سے خوب نوک جھونک ہوئی بالآخر پیر پٹختے مجھے واپس آجانا پڑا ۔۔
سوچتا ہوں ۔۔۔ یہ جو بڑے بڑے افسان ہیں ۔۔( ہمارے
معاشرے میں تو ۔۔ بہت ہی بڑے کہلائے جاتے ہیں ناں ) جن کو چائے پینی ہو تو غلام کو
آواز دے دی ۔۔۔ جوتے پالش کرنے ہوں ۔۔ تو غلام کو آواز دے دی ۔۔۔ کپڑے استری کرنے
ہوں ۔۔۔ تو خاص دھوبی ۔۔۔۔۔
یوں محسوس ہوتا ہے ۔۔ جیسے ہمارے معاشرے میں ۔۔۔ محنت
کش طبقہ ۔۔۔ ان افسران بالا کی غلامی کے لیے پیدا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ جن کی قدر ۔۔۔
کھوٹے سکے کی ہے ۔۔۔
اور سڑکوں پر سیاستدان محنت کش طبقے کے لیے آواز بلند
کرتا لاوڈ اسپیکر پھاڑ ڈالتا ہے ۔۔۔ اور
ڈائس سے اتر کر ۔۔ ایک غلام آتا ہے ۔۔ صاحب
کا پسینہ صاف کرنے ۔۔۔
No comments:
Post a Comment