Monday, August 31, 2015

محبت کا فلسفہ

محبت کا فلسفہ
ماخوذ  از مولانا ولی رازی 
تحریر ،محمد شہیر شجاع

کیا خوب فرماتے ہیں ۔۔۔ محبت ذات سے نہیں صفات سے ہوتی ہے ۔۔۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ۔۔۔ محبت ہونے کے  لیے ذات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں بلکہ صفات کا رونما ہونا کافی ہوتا ہے ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ۔۔۔ ہم اللہ جل شانہ ۔۔۔ و انبیاء کرام علیہم السلام ۔۔ اولیاء عظام رحمہم اللہ وغیرہم سے ہمارا محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے ۔۔
اور جو ذات کا متلاشی ہوتا ہے ۔۔ اس کا ایمان کیا ہوتا ہے ۔۔ یہ ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں ۔۔
اسی طرح والدین ، اساتذہ کرام و دیگر اعزا سے بھی محبت ۔۔۔۔۔ ان کی ذات کی نسبت سے نہیں ۔۔ بلکہ ان کی صفات کی نسبت سے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بات درست بھی ہے ۔۔۔ یہ ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ ۔۔۔ والدین کی عزت ضرور ہوتی ہے ۔۔ پر محبت ۔۔ ان کی صفات کی بدولت ہی قائم ہو سکتی ہے ۔۔۔ اسی طرح اساتذہ کے زمرے میں ۔۔ ہمارے دلوں میں ہر استاذ کے لیے محبت کا جذبہ نہیں پایا جاتا ۔۔۔ بلکہ صرف اعلی صفاتی استاذ کے لیے یہ جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔۔۔

آگے فرماتے ہیں ۔۔۔ محبت کے اسباب چار ہیں ۔۔۔۔۔۔ کمال ۔۔۔ جمال ۔۔ نوال ۔۔ اور قربت ۔۔

کمال : ۔۔۔ ہم اپنے بزرگوں سے ان کے کمال کی وجہ سے ہی محبت کرتے ہیں ۔۔ بلکہ اس محبت میں ایمان کی بھی شرط نہیں ہے ۔ اگر کوئی کافر ماہر معمار ، مالی ، لوہار ، مہندس یا سائنسدان ہے تو آپ اس سے اس کے اس کمال کی وجہ سے معتقد ہوتے ہیں ۔۔۔

جمال :۔۔۔  محبت کا دوسرا سبب حسن ہے ۔۔ لیکن یہ محبت عارضی ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ حسن کے بگڑتے ہی محبت بھی فنا ہوجاتی ہے ۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  نے جمال کی بابت ایک مفید نکتہ لکھا ہے ۔۔۔
فرماتے ہیں ۔۔۔ جمال میں دو عیب ہیں ۔۔
1 : یہ عارضی ہوتی ہے محبوب میں ذرا سی تبدیلی سے رخصت ہوجاتی ہے ۔۔۔
2 : یہ اکثر فتنے میں ڈالنے کا سبب ہوتا ہے ۔۔۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ کو اللہ تعالی نے سب سے حسین ترین انسان تخلیق فرمایا ۔۔۔۔ کوئی تو وجہ تھی کہ مصر کے اعلی طبقے کی عورتوں نے اچانک ان کو ایک نظر دیکھا اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔۔۔۔ اور بے اختیار پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں فرشتہ ہے ( حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ حسن فرشتوں کو بھی نہیں دیا گیا )
کئی فتنوں سے گزرنے کے بعد ۔۔۔۔ عزیز مصر نے آپ علیہ السلام کو اقتدار دینا چاہا تو اس وقت آپ نے اس سے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے یہ اقتدار اس لیے دو کہ میں دنیا کا حسین ترین انسان ہوں ۔۔ بلکہ فرمایا ۔۔ قرآن کریم میں ہے کہ :
مجھے زمین کے خزانوں کا حاکم بنا دو ۔ کیونکہ میں حفیظ اور علیم ہوں ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حسن کوئی کمال نہیں اور نہ یہ کوئی اختیاری عمل ہے ۔۔۔ اللہ تعالی جسے چاہے حسن و جمال سے نوازتے ہیں ۔

نوال : ۔۔۔۔ نوال کے معنی ہیں ۔۔ سخاوت ۔۔ داد و دہش ۔۔
یہ ایک فطری امر ہے ۔۔۔۔کہ ۔۔ انسان کو اپنے محسن سے محبت ہوتی ہے ۔۔۔ انسان ہی کو کیا ۔۔ محسن سے تو جانور کو بھی محبت ہوجاتی ہے ۔۔ گھوڑے اور کتے اپنے محسن سے محبت کے لیے مشہور ہیں ۔۔۔
تاریخ میں حاتم طائی جو کہ کافر تھا ۔۔ اپنی سخاوت کی بنا پر ہی مشہور ہے ۔۔۔

قرابت ۔۔۔۔۔ قربت کے جو معنی ہم اختیار کرتے ہیں ۔۔ وہ تہ اللہ تعالی کے لیے محال ہے ۔۔ کیونکہ قریب ہونے کے لیے حرکت کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ جو اللہ تعالی کی شان کے خلاف ہے ۔۔ قربت سے مراد دو اشخاص میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قربت ہو ۔۔۔ اس اعتبار سے بندوں کا اپنے رب سے قربت کا معاملہ ان کی محبت کے درجے کے مطابق ہوتا ہے ۔۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ۔۔۔ انبیاء علیہم السلام اس قربت میں سب سے آگے ہیں ۔۔ ان کے بعد درجہ بدرجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ  ہیں ۔۔۔
خلاصہ کلام یہ کہ ۔۔۔ یہ چاروں صفات کمال ۔۔ جمال ۔۔ نوال ۔۔ و قربت ۔۔ جب انسان میں پائے جائیں گے تو ناقص اور زوال پذیر ہونگے ۔۔۔ لہذا حقیقی محبت اللہ جل شانہ کے سوا کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔ جس سے بھی ان میں سے کسی سبب کی نسبت ہوگی ۔۔ وہ حق تعالی کی عطا ہوگی ۔۔ اور خود اللہ جل شانہ کی ذات میں یہ ساری صفات لا محدودو جمع ہیں ۔۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...