ہندوستان کی تاریخ سے چند سطریں
شہیر شجاع
تاریخ ہندوستان بے شمار بہترین
کرداروں سے بھری پڑی ہے ۔۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کرداروں کو ہم آج جانتے تک نہیں
۔۔۔ جنہوں نے تحاریک کی ابتداء کی ۔ ایک
مکمل نظریاتی سیاست کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے بعد اس کی تعمیل میں جت گئے ۔۔۔
جس کے سردار بلاشبہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو کہا جا سکتا ہے ۔۔ جن کی تحریک کو بالاکوٹ کے واقعے کے بعد بھی
ختم نہیں کیا جاسکا ۔۔۔ سب بڑا المیہ یہ
ہوا کہ ان کے بعد آنے والوں کو مسلسل پرپیگنڈوں کے ذریعے سے ان کی شناخت سے محروم
رکھا گیا ۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیش بہا کرداروں اور فیصلوں کو متنازعہ بنا کر
عوام کو بددل کیا گیا ۔۔۔ ان میں سب سے زیادہ وہ مولوی شامل تھے جن کے لیے ان کا پیٹ
سب سے افضل تھا ۔۔
اسی طرح آل انڈیا کانگرس میں شامل
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے جانشینوں نے سمجھ لیا تھا کہ اس طریق سے انقلاب نہیں لایا
جا سکتا ۔۔ جب تک عوام میں شعور و آگہی نہ پیدا کی جائے انہیں ۔۔۔ اعلی تعلیم کی
طرف راغب نہ کیا جائے ۔۔۔ جب تک نتائج صد فی صد حاصل نہیں کیے جا سکتے ۔۔۔۔
سر سید احمد خان کے علی گڑھ کالج کا قیام بھی اسی
سلسلے کی ایک کڑی تھی ۔۔۔ اور اور سر سید
و علماء کے مابین جو خلیج دکھائی جاتی
ہے اس میں صرف یہ اختلاف تھا کہ سر سید
احمد خان رحمہ اللہ جس طرف پیش قدمی کرنے چلے ہیں اس کے تحت نظریہ تشدد جنم لے گا
۔۔۔ جو ایک ہی قوم کو دو طبقات میں بانٹ دے گا ۔۔ جس کا نظارہ لینن کی حکومت اور
مصطفی کمال کی حکومتوں میں دیکھا جا چکا تھا ۔۔۔ ارادہ یہ تھا کہ سرسید رحمہ اللہ
کو اپنا راستہ یوں بالکل جدا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ساتھ ملکر ایک متفقہ لائحہ عمل
کے تحت آگے بڑھنا چاہیے ۔۔ جس بنا پر عوام تک علوم و فنون کے تمام دروازے وا ہوجائیں
۔۔۔ مگر ان کے خلاف ایسی مہم چلائی گئی جس نے عوام کو دو طبقات میں بانٹ ہی ڈالا
۔۔۔ اور یہ نظریہ نمو پاگیا کہ دین و دنیا دو مختلف چیزیں ہیں ۔۔۔۔ جس کا خمیازہ
آج تک ہم بھگت رہے ہیں ۔۔۔۔
شاہ ولی اللہ کے جانشینوں کا گاندھی جی کے
طرز سیاست سے اختلاف کی ایک وجہ ان کا نظریہ عدم تشدد تھا ۔۔ کہ جب تک قوم
کے لیے جان تک قربان کردینے کا جذبہ موجود نہیں ہوگا ۔۔ تو فیصلوں میں وہ جان باقی
نہیں رہے گی جس تک پہنچا جاسکتا ہو ۔۔۔
مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں ۔۔۔ ہم جس طرح قرآن عظیم کی تعلیم سے اس مقصد عالی پر لے آتے ہیں ۔۔ اسی
طرح اگر ہندو تعلیم یافتہ نوجوان ہم پر اعتماد کرے تو ہم اس کو ۔۔۔ ولی اللہ فلاسفی
پڑھا کر " بھگوت گیتا" کی تعلیم سے اس مقصد پر لے آئیں گے ۔۔ یہی طرز
عمل ہمارا بائبل ماننے والی اقوام کے ساتھ رہے گا ۔۔ ہم ولی اللہ فلاسفی پر ساری
بائبل پڑھا کر انسانیت عامہ کے مفاد پر ان کو جمع کریں گے ۔الغرض مولانا شیخ الہند
رحمہ اللہ ہمیں تین چیزیں بتاگئے ۔۔۔
اول یہ کہ ۔۔۔۔۔ آپ نے درجہ تکمیل
میں شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اور مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ کی حکمت و دانائی داخل
کروائی ۔۔۔
دوم سیاسی تحریک میں علماء کے
ساتھ علی گڑھ پارٹی کو مساوی درجے پر شامل کرنا منظور کر لیا ۔ ۔
سوم انڈین نیشنل کانگریس کے اندر
جا کر بیرونی امارت اسلامیہ کی سیاسیات سے علیحدگی اختیار کر کے کام کیا جائے ۔۔
بہر حال ۔۔۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ اشرافیہ کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہا
۔۔۔ انگریزوں نے ملتان سے دلی تک ساری زمین
ان کے خون سے رنگ دی ۔۔۔۔ کالا پانی کی قید سے کون ناواقف ہوگا ۔۔۔۔ ان سب اذیتوں
کے باوجود یہ طبقہ مختصر رہا ۔۔ شاہ ولی اللہ کے جانشین ۔۔ شاہ صاحب کی تحریک کو
عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کرتے رہے ۔۔
مسلم لیگ ہو یا کانگریس ۔۔ ہر طرف سے ان پر تیر برسائے گئے ۔۔۔ مگر یہ کارواں جاری
رہا ۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ شاید وہ تحریک
دم توڑ گئی ۔۔ جو چیدہ چیدہ شخصیات تھیں ۔۔ انہیں شہید کیا جاتا رہا ۔۔۔ یہاں تک کہ
آج شاید اس سلسلے کی کوئی کڑی موجود ہی نہیں ہے ۔۔۔
عوام فرقوں اور طبقوں میں بٹ گئے
۔۔۔ اور نظریہ اساس کہیں دور کھو چکا ۔
شاہ صاحب نے فرمایا تھا ۔۔۔
اگر کسی قوم میں تمدن کی مسلسل
ترقی جاری ہے تو اس کی صنعت و حرفت اعلی کمال پر پہنچ جاتی ہے اس کے بعد اگر
حکمران جماعت آرام و آسائش اور زینت و تفاخر کی زندگی اپنا شعار بنالے تو اس کا
بوجھ قوم کے کاریگر طبقات پر اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی
زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگا ۔ انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہوجاتے ہیں
جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کیا جائے اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی
طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے ۔
No comments:
Post a Comment