باچا خان اور سانحہ باچا خان یونیورسٹی
شہیر شجاع
ہمارے
پاس اتنے قضیے ہیں جو آج تک حل نہیں کیے جا سکے ۔۔۔ ان قضیوں میں قضیہ ۔۔ خان عبدالغفار
خان ۔۔ عرف باچا خان مرحوم بھی ہیں ۔۔۔۔ دنیا
میں اب اسی کا راج ہے جس کی گرفت پروپیگنڈوں پر مضبوط ہے ۔۔ اتنی مضبوط کہ اس کے حصار سے باہر نکلنا ۔۔ نہایت ہی مشکل ہو
گیا ہے ۔۔۔۔ جس نے ہمارے اجتماعی شعور کو
کچھ زیادہ ہی متاثر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ نظم کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے ۔۔۔۔ مگر ہمارے
ہاں یہی سب سے بنیادی نکتہء سیاست ہے ۔۔۔ اگر اجتماعی نظم پیدا کر دیا گیا ۔۔ اور مکمل
ریاست ایک واحد نظم پر قائم ہوگئی ۔۔ تو پھر ان
جوکروں و ٹھیکیداروں کا اقتدار کی دوڑ میں رہنا ممکن نہ رہے گا ۔۔۔ دہشت گرد
جب چاہیں جیسے چاہیں ۔۔۔ خون بہا دیتے ہیں ۔۔۔ جس کا رد عمل ۔۔۔ مشینی و ۔۔ بولی ووڈ
۔۔ انداز میں پیش آتا ہے ۔۔۔ چند اداس چہرے ۔۔ اور چند ۔۔ بے تکی باتیں ۔۔ اور پھر
سے گاڑی رواں دواں ۔۔۔۔ پہلے آرمی اسکول
۔۔۔ اب باچا خان یونیورسٹی ۔۔۔۔ یہ انسانی خون نہیں ۔۔۔ علم و ادب پر وار ہے ۔۔۔ اور
جن کو علم و ادب سے کوئی سرو کار ہی نہ ہو ۔۔۔ ان کے لیے سیاست ایک کھیل ہے ۔۔۔۔۔ جس
کھیل کے اصولوں میں ایک انسانی جان ، شعور
، بیداری ، نظم و ضبط ۔۔۔ کی خرابی سب سے اہم ہیں ۔۔ اگر اس اندھے ہجوم کو ۔۔ انہوں
نے بصیرت دے دی تو پھر ان کی فیکٹری کیسے چلے گی ۔۔۔۔۔۔ دشمن نے باچا خان سے منسوب
علمی ادارے ۔۔۔ جس کا منصب ان اصولوں پر غور و فکر ہے جن اصولوں کی بنیاد ۔۔ خدائی
خدمت گار تھے ۔۔۔ اس پر چوٹ کی ہے ۔۔۔ جس ضرب سے ہر وہ شخص زخم خوردہ ہے ۔۔ جسے اس
کی اہمیت کا اندازہ ہے ۔۔۔۔۔ باچا خان کو پہلے
۔۔ اس جماعت نے ملزم ٹہرایا جس کے لیے اس نے
جدوجہد آزادی کی تاریخ رقم کی ۔۔۔ اس کے بعد ان اپنوں نے اس قدر چوٹ پہنچایا
کہ ۔۔۔۔ آج اس کا نام عموما ایک گالی کی طرح عوام کے ذہنوں میں پیوست ہے ۔۔۔۔ اور اب
اس یونیورسٹی ۔۔ میں دہشت گردی ۔۔ بھی ایک قضیے کی طرح اڑادی جائیگی ۔۔
No comments:
Post a Comment