پردیسی پاکستانی
شہیر شجاع
ہم اپنا ملک چھوڑ کر کچھ زیادہ ہی وطن عزیز سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ مگر ہم انصاف
نہیں کرتے ۔ عموما جو یورپ امریکا جا کر سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت پر کچھ سخت قسم کی تنقید
کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ غور کیا جائے تو ایسے افراد عموما بہتر اذہان ، بہتر
شعور کے مالک ہوتے ہیں ۔ ان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں ۔ کسی بھی
معاشرے کی بہتر تخلیق کے لیے ان کا حصہ نہایت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ مگر بدقسمتی کہیے کہ ہمارے مادر وطن سے وہ اپنے
وسائل کی تلاش میں نکل جانے پر مجبور
ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر جہاں وہ مسکن بناتے ہیں ، اسی تہذیب و تمدن ، اور اسی ثقافت
کی درحقیقت ترویج میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ دراصل یہ غیر ارادی ہوتا ہے جو ارتقاء کے ساتھ
ساتھ نظریہ بن جاتا ہے ۔ جس بنا پر اپنے
وطن کی ثقافت و تہذیب کے خدوخال اسے
دقیانوسیت زدہ محسوس ہوتے ہیں ۔ جبکہ یہ
تہذیب ویسے ہی اس قدرگرد آلود ہوچکی ہے ۔ اس
کا سماج ایک ایسے دور سے گزر رہا
ہے جہاں شعور کا عمل دخل نہیں ۔ محض ایک تیز
رفتار زندگی ہے جس کا ردعمل اپنی طاقت کے مطابق ہر شخص دیتا ہے جس میں کچھ ماضی کا عمل دخل ہے تو کچھ
حال کا ، کوئی مربوط اخلاقی نظام کا موجود نہ ہونا ایک بہت بڑا خلا ہے ، سو ایک
غیر مرتب اور پراگندہ معاشرہ ہمارے سامنے ہے ۔ جس پر صبح و شام ہر پاکستانی دنیا
کے ہر گوشے سے طنز ، تنقید و تنقیص کے تند
و تیز تیروں کی بارش کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔
No comments:
Post a Comment