Tuesday, January 31, 2017

پردیسی پاکستانی



پردیسی پاکستانی
شہیر شجاع
ہم اپنا ملک چھوڑ کر کچھ زیادہ ہی  وطن عزیز سے محبت کرنے لگتے ہیں ۔ مگر ہم انصاف نہیں کرتے ۔ عموما جو یورپ امریکا جا کر سکونت اختیار کرلیتے ہیں۔ وہ   اپنی تہذیب و ثقافت پر کچھ سخت قسم کی تنقید کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ غور کیا جائے تو ایسے افراد عموما بہتر اذہان ، بہتر شعور کے مالک ہوتے ہیں ۔ ان میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں ۔ کسی بھی معاشرے  کی بہتر تخلیق کے لیے ان  کا حصہ نہایت کارآمد ثابت ہوسکتا ہے ۔ مگر   بدقسمتی کہیے کہ ہمارے مادر وطن سے وہ اپنے وسائل  کی تلاش میں نکل جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اور پھر جہاں وہ مسکن بناتے ہیں ، اسی تہذیب و تمدن ، اور اسی ثقافت کی درحقیقت ترویج میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈال رہے ہوتے ہیں ۔ دراصل  یہ غیر ارادی ہوتا ہے جو ارتقاء کے ساتھ ساتھ  نظریہ بن جاتا ہے ۔ جس بنا پر اپنے وطن کی ثقافت و تہذیب  کے خدوخال اسے دقیانوسیت  زدہ محسوس ہوتے ہیں ۔ جبکہ یہ تہذیب ویسے ہی اس قدرگرد آلود ہوچکی ہے ۔ اس   کا سماج   ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے جہاں شعور کا عمل دخل نہیں ۔ محض ایک  تیز رفتار زندگی ہے جس کا ردعمل اپنی طاقت کے مطابق ہر شخص  دیتا ہے جس میں کچھ ماضی کا عمل دخل ہے تو کچھ حال کا ، کوئی مربوط اخلاقی نظام کا موجود نہ ہونا ایک بہت بڑا خلا ہے ، سو ایک غیر مرتب اور پراگندہ معاشرہ ہمارے سامنے ہے ۔ جس پر صبح و شام ہر پاکستانی دنیا کے ہر گوشے سے  طنز ، تنقید و تنقیص کے تند و تیز تیروں کی بارش کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...