بیٹی
کے معاملے میں والدین کی کوتاہی
شہیر
شجاع
سماجی رویوں میں بیشمار پیچیدگیاں محض رسوم و رواج کی بنا
پر موجود ہیں ۔ جس بنا پر مسائل ہمہ وقت معاشرے کی ہر اکائی یعنی خاندان کے ساتھ لاحق ہیں ۔ طبقات کے لحاظ سے ہر ایک کے مسائل بھی جدا ہیں ۔ مگر عموما اخلاقی مسائل میں تمام کو ایک ہی قطار میں رکھا جاسکتا ہے ۔ ہمارے سماج کے لیے بیٹی کا تصور بیٹے سے کہیں
زیادہ حسین ہے ۔ مگر جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی جاتی ہے والدین کو اس کا گھر بسانے کی فکر پریشان کرتی
رہتی ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ جس
میں مختلف طبقات کی مختلف سوچ بھی ہے ۔
جیسے یوں چاہنا کہ اس کا داماد
تعلیم یافتہ ہو ، ذمہ دار ہو ، اچھا کماتا ہو ، اپنے گھر کا مالک ہو ، گاڑی بنگلہ ، دین دار ، اچھی فیملی ، اسی طرح دیگر
امیدیں جن میں کئی امیدیں فطری ہیں اور
چند ایسی بھی ہیں جو کہ سماجی و معاشرتی رویوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔ اس کے
علاوہ ایک فکر جہیز کی بھی رہتی ہے ۔ بہت سی لڑکیاں تو محض مناسب جہیز کا دستیاب نہ
ہونے کی بنا پر بن بیاہی رہ جاتی ہیں ۔
والدین کی جانب سے بھی بہت سی زیادتیاں بیٹی کے ساتھ عام ہیں ۔ جیسے اگر
بیٹی کو پڑھایا لکھایا ہے تو اس کا مطلب
اس کے لیے لڑکا اس سے کہیں اعلی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ لڑکے کا اسٹینڈرڈ اس
قدر ہائی رکھ دیا جاتا ہے کہ اس پراگندہ و مسائل کا شکار معاشرہ ایسا داماد آسانی
سے مہیا نہیں کرپاتا ۔اور اگر ایسا لڑکا میسر ہو تو وہاں کا اسٹینڈرڈ اتنا ہائی
ہوتا ہے کہ اسے یہ رشتہ مناسب نہیں محسوس ہوتا ہے ۔ پھر بیٹی اگر کماو پوت ہے تو والدین زیادہ سے
زیادہ اس سے مستفید ہونے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ اس کی عمر ڈھل جاتی ہے اور
ہمارا معاشرتی رویہ ڈھلی عمر کی لڑکی کو قبول نہیں کرتا ۔ یا پھر ایسی شرطیں رکھ
دی جاتی ہیں جو کہ عام متوسط گھرانے کے لیے ایسی بہو کا انتخاب مشکل ہوجاتا ہے ۔
اس کے علاوہ اس جدید دور میں بھی برادری
سے باہر شادی نہ کرنے کا رواج عام ہے ۔
جو اس دائرے سے باہر بھی ہیں تو آٹے میں
نمک کے برابر ہیں ۔ کچھ والدین ایسے بھی
ہوتے ہیں جو ہمہ وقت پراگندہ خیال رہتے ہیں ۔ ان کو ہر رشتے میں کوئی نہ کوئی ایسی
کمی نظر اجاتی ہے جس وجہ سے اچھے خاصے رشتے وہ ٹھکراتے جاتے ہیں ۔ یہاں تک رشتوں کی حیثیتیں بدلنی شروع ہوجاتی
ہیں ۔ آخر کار ایسے والدین کے پاس کوئی
چارہ کار نہیں رہتا کہ سر پیٹ کر کسی کے بھی گلے باندھ دیا جائے ۔ پھر اچھے
تعلیم یافتہ طبقات میں بھی یہ گھٹن
محسوس کی گئی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ان کی اپنی شادی کے لیے مشورے میں شریک نہیں
کرتے ۔ بلکہ فیصلے تھوپتے ہیں ۔ جبکہ اسی لڑکی کو بڑی جامعات میں انہوں نے تعلیم
دلوائی ہوتی ہے ۔ کہیں تو لڑکی خاموش رہتی ہے اور ان کے فیصلوں پر اپنی زندگی داو
پر لگائے رکھتی ہے ۔ جبکہ بغاوت پر آمادہ لڑکیاں پھر اس گھٹن سے باہر نکل آنے پر
توجہ دینے لگتی ہیں ۔ جس کا نتیجہ عموما
بہتر نہیں نکلتا ۔ یہ موضوع طویل اور تفصیل کا متقاضی ہے ۔ ہم بس سرسری طور پر ان
نکات کو سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں جو عموما رائج ہیں ۔ تاکہ ہم ان رویوں کو
سمجھ سکیں اور اس کے حل کی جانب توجہ دے سکیں ۔
جب سے آزادئ نسواں کا جادو سر چڑھ کر بولا ہے ۔ ہمارا
معاشرہ بہترین ماؤں سے محرومیت کی جانب نہایت تیزی سے سفر کرنے لگا ہے ۔ یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ مگر اس کا سب سے زیادہ
نقصان لڑکی نے اٹھایاہے اور اٹھا رہی ہے ۔ چونکہ ماں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ
وہ اپنی اولاد کی تربیت میں اپنے اوقات صرف کرے ۔ ماں کا درجہ ہی سب زیادہ بلند اس
لیے کہ ماں بننے کے بعد اس کی زندگی کا ہر لمحہ اولاد کی فلاح کے لیے وقف ہوتا ہے
۔ مگر اک فریب نے اسے " میری زندگی
" کی جانب مائل کردیا ہے ۔ اور نسلیں تباہ ہونی شروع ہوگئی ہیں ۔ جب اولاد کی
تربیت محض معاشرے پر چھوڑ دی جائے تو پھر معتدل
معاشرے کی توقع رکھنا ایک سراب کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا ۔ خصوصا آج کے دور میں جب معاشرے میں
برائی کا تصور بھی سرسری سا رہ گیا ہے ۔ ایسے میں بہت زیادہ توجہ
طلب کام ہے ۔ بیٹے کی تربیت ایسی کی جائے
کہ کل کو جب وہ اپنا گھر بسائے تو اسے اپنی ذمہ داریوں کا علم ہو ۔ اور بیٹی کی
شادی کی عمر سے پہلے ہی کوششیں شروع کردی جائیں ۔ کہ جیسے ہی درست وقت پہنچے وہ
بہتر نتائج حاصل کرچکے ہوں ۔ ا سکے لیے
عام میل جول رکھنا نہایت ضروری ہے ۔ تقاریب میں شریک ہونا ۔ رشتہ داروں سے بہتر
تعلقات بنائے رکھنا ۔ پڑوسیوں سے بہتر انداز میں پیش آنا ۔ اپنے سماجی رابطوں کو
بحال رکھنا ۔ اسی طرح آہستہ آہستہ اپنے آپ
کوان روسوم و رواج کی پابندی سے باہر کرتے
جانا جنہوں نے آج عام زندگی میں پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں ، بھی ضروری ہے ۔ اللہ جل شانہ کا فرمان الطیبات للطیبین ،
والطیبون للطیبات ۔ اس پر کامل یقین ہونا چاہیے ۔ تاکہ ہم اپنی اولاد کو بھی طیب
اور طیبہ کی کیٹیگری میں شامل کرسکیں اور جب یہ ہوجائے تو پھر یقینا انہیں بھی
ویسا ہی ہمسفر میسر ہوگا ۔ محض وسوسوں اور اندیشوں کی بنا پر فیصلے سے بھاگنا حل
نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے پہلے سے تیاری کرنی ہوتی ہے ۔ قوت فیصلہ پیدا کرنا ہوتا ہے
۔ اپنی نظروں کو زیرک بنانا ہوتا ہے ۔ کیونکہ جتنے بھی فرمانبردار اولاد ہیں ان کی
زندگیاں آپ کے فیصلوں کےمرہون منت ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی ان کی زندگی کے فیصلوں سے انہیں دور رکھنا ،
نہ ہی مذہبی طور پر درست ہے اور نہ سماجی ۔ ویسے بھی اسلام جلد شادی کردینے پر زور دیتا ہے
۔ اگر آپ اپنی اولاد کو محض تعلیم کی وجہ سے شادی میں تاخیر کرا رہے ہیں تو اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں ۔ ایسی کیا
تعلیم جس میں انسان ہیجان کا شکار ہو ۔ ذہن آلودہ ہو ۔ یکسوئی نہ ہو ۔ اور شادی کے
بعد کیوں تعلیم جاری نہیں رکھی جا سکتی ۔؟
No comments:
Post a Comment