سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں
............................................................شہیر شجاع
............................................................شہیر شجاع
مغربی ممالک کی مہیا کی گئی پر آسائش زندگی میں جیتے ہوئے اپنے اس
سماج کو قابل گردن زدنی قرار دینا نہایت آسان ہے ۔یہ زمین صدیوں سے غیر منصفانہ
روایتوں اور رواجوں کی بنیاد پر سسک رہی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مغربی
دنیا ہر قسم کے اخلاقی و سماجی مسائل سے پاک ہے ۔ جہاں مادر پدر آزاد معاشرہ ہونے
کے باوجود زنا بالجبر کی شرح ہم جیسے گھسے پٹے معاشرے سے کہیں زیادہ ہے ۔ سڑ کوں
پر اور اپنی گاڑیوں کو اپنا گھر بنانے والوں کی تعداد
ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جہاں ۔۔ایس آئی یوٹی ، شوکت خانم، اخوت
اور نہ جانے کتنے ایسے ادارے موجود ہیں ۔ یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ۔ ہمارا
معاشرہ صدیوں سے جاگیر داروں ، سرداروں ، وڈیروں ، خانوں ، چوہدریوں کی غلامی کر
رہا ہے ۔ عام آدمی کے پاس تعلیمی وسائل ہیں نہ تربیتی مراکز اس سماج کو میسر ہیں ۔
اگر کہیں کچھ مثبت ہے بھی تو اس میں بھی کیڑے نکالنے کی روایتیں بدرجہ اتم موجود
ہیں ۔ آپ کے پاس ایسا کیا ماڈل ہے جو اس سماج کو تعلیم یافتہ بنائے ? اس کو اپنے اقدار
سے روشناس کرائے ؟ اس کے اخلاقی اقدار کو قائم کرے ؟ مسلکی عصبیتیں بہت بعد کی
چیزیں ہیں صاحب ۔ یہاں نسلی و لسانی عصبیتیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں ۔ وہ تو
آپ کو مغرب نے ایک بتی کے پیچھے لگا یا ہے ۔ مذہب کا نام آتے ہی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔
دل میں نفرت آنکھوں میں انگارے دوڑ جاتے ہیں ۔ ہر جانب ملا کسی دیو کی طرح دکھنے
لگتا ہے ۔ آپ کبھی مدارس کا دورہ تو کر کے دیکھیے ۔ پانی والی دال اور سوکھی روٹی
کھا کر ٹاٹ کے بستر پر سوکر ، چٹائیوں میں بیٹھ کر جو اپنی جوانی لٹا دیتے ہیں ۔
ان کے لیے اس معاشرے میں کیا مقام ہے ؟ امام مسجد بنا دو ؟ موذن لگا دو ، نکاح
پڑھوالو ؟
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟
No comments:
Post a Comment