ن
لیگی غم سے نڈھال ہیں بقیہ خوشی سے نہال ہیں ۔ کیا ن لیگیوں کیلیے یہ بات ہی کافی نہیں
کہ ن
لیگی حکومت نہیں گری ؟ بس ایک کلیدی فرد نا اہل ہوا ہے ۔ اس فیصلے پر دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ۔۔
ہم منشور کے تابع ہیں یا فرد کے ؟ ایک " محبوب فرد " کے اپنے منصب سے ہٹ
جانے پر غم و اندوہ کی یہ کیفیت ذاتی محبت کی بنا پر تو درست ہو سکتی ہے ۔ مگر ملکی
مفاد کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا زیادہ بہتر ردعمل ہے ۔ آیا کہ محبوب فرد سے منسوب محبوب
جماعت اپنے منشور پر قائم ہے ؟ اور وہ اس پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے کہ نہیں ؟
ہاں
اگر ہم اب بھی دربار سے منسلک ہیں اور محبوب بادشاہ کی "نظری موت " کے غم
سے نڈھال ہیں ۔ پھر امید رکھنی چاہیے ۔ ہم کبھی جمہوری دور میں داخل نہیں ہوسکتے ۔
جے آئی ٹی کے بننے کے بعد سے میں نے کم از کم اس پورے معاملے میں کسی ردعمل کے اظہار
سے گریز کیا ۔ بلکہ معاملات کی درست تفہیم و تعبیر کی کوشش کرتا رہا ۔ کوئی اسے عالمی
سازش قرار دیتا رہا ۔ کوئی اسے شفاف احتساب ۔ غرض خودساختہ لیڈروں کی زبان ہمارے منہ
میں رہی ۔ اور خوب جگالی ہوتی رہی ۔ نتیجتا ، آج ایک جانب دلوں میں دو مضبوط اور محترم
اداروں کے لیے نفرت کا لاوا بھڑک اٹھا ہے ۔ کیا
اب بھی سیاسی ادارے نے اپنی ساکھ کے حصول کے لیے حسن اخلاص اور حسن نیت کے ساتھ جدوجہد نہیں کرنی
چاہیے ؟ پارلیمنٹ کے افراد ہی پارلیمنٹ کو کوئی حیثیت نہیں دیتے ۔ جبکہ یہی وہ ادارہ
ہے جو تمام اداروں کا سربراہ ہے ۔ جب سربراہ کے دامن میں چھینٹے ہونگے تو ماتحت کیونکر
اس کا احترام کریں گے ؟
No comments:
Post a Comment