Saturday, January 27, 2018

کراچی ، چند سسکتی یادیں اور امید ۔

کراچی ، چند سسکتی یادیں اور امید ۔
شہیر شجاع
کسی نے  ایک جملہ کہا " مکا تو پولائٹ سا لفظ ہوگا آپ کراچی کے  لوگوں کے لیے " یقینا یہ اذراہ مذاق تھا ۔۔۔ لیکن چشم تصور میں ماضی کی بہت سی یادیں تازہ کرگیا ۔  میں نے اس وقت  ہوش سنبھالا جب کراچی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجا کرتا اور یہ عام بات ہوتی گئی ۔ سڑک اچانک سنسان ہوجاتی اور دو گروہوں کے مابین خونخوار مقابلہ شروع ہوجاتا ۔ چند  لاشیں وہاں گرتیں چند یہاں ۔ ہم رات کو سوتے تو اچانک ٹائروں کے چرچرانے کی آواز سے آنکھ کھل جاتی ۔ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی اور چند ہی لمحوں میں سناٹا چھا جاتا ۔ اور پھر ہماری آنکھ لگ جاتی ۔ یہ بے حسی کی جانب ابتداء تھی ۔ ہم صبح سو کر اٹھتے اسکول یونیفارم میں باہر نکلتے تو  سڑک پر لاش پڑی ہوتی جس کے ہاتھ بندھے ہوتے اور سینہ چھلنی ہوتا ۔ ہم اس لاش کو یوں دیکھتے جیسے کوئی بلی مری ہو ۔ پولیس  ایمبولینس اور تماشایوں کا ہجوم ہوتا اور ہم اسکول کی راہ لیتے ۔ گولیوں کا چلنا ، لاشوں کا گرنا ، شیعہ سنی ، ایم کیو ایم ، ایم کیو ایم حقیقی ، ہتھوڑا گروپ ، اور نہ جانے کیا کیا ۔ یوں ہمارا بچپن گزرتا گیا ۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی سینہ پتھر ہوتا گیا ۔ بھتہ خوری عام تھی  ۔ کاروبار شروع کرنا ، گھر بنانا ، آرائش ، شادی بیاہ ، غرض ہلکی سی چمک آپ کی  دہلیز پر دہشت گردوں کو کھڑا کرنے کے لیے کافی تھی ۔ تعلیمی اداروں پر بھی انہی چیزوں کا راج تھا ۔ ہم پانچویں جماعت میں تھے کہ آٹھویں کا لڑکا اور نویں جماعت کے لڑکے کے مابین جھگڑے کی وجہ یہی پارٹیاں تھی ، خون دیکھ کر اسکول کے ان نازک اندام بچوں پر کوئی خوف طاری نہ ہوا ۔ انہی دنوں ایک نوجوان ہمارے پڑوس میں قتل کردیا گیا ۔ کسی کو افسوس نہ ہوا ۔ خون یوں تھا جیسے پانی ۔ آج کراچی میں خون کی بہتی ندیوں کو بھلے قرار آیا ہے ۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں سے لیکر نادرا کی دہلیز تک کراچی کے لوگ آج بھی بے بس ہیں ۔ بھتہ خوری آج بھی اسی ڈگر پر موجود ہے ۔ آپ کاروبار بنا کسی کو بھتہ دیے نہیں چلا سکتے ۔  
کیا کراچی کو کبھی بھی اپنانے والے سیاستدان پیدا نہیں ہونگے ؟
تھانے بھتے جمع کرنے کے ادارے بن چکے ہیں ۔
پولیس بھتہ خور ہے اور بھتہ لینےوالوں کی محافظ ہے ۔
عدل کے اداروں کی صورتحال سے کون ناواقف ہوگا ۔
کیا کراچی پھر کبھی علم و فن ، تہذیب و تمدن کا  چمکتا ستارہ نہیں بن سکے گا ؟
وہ جو " علم " تہذہب " و ثقافت " اس کی شان تھی ۔ کیا وہ پھر حاصل نہ کرسکے گا ؟
   

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...