کراچی ، چند سسکتی یادیں
اور امید ۔
شہیر شجاع
کسی نے
ایک جملہ کہا " مکا تو پولائٹ سا لفظ ہوگا آپ کراچی کے لوگوں کے لیے " یقینا یہ اذراہ مذاق تھا
۔۔۔ لیکن چشم تصور میں ماضی کی بہت سی یادیں تازہ کرگیا ۔ میں نے اس وقت
ہوش سنبھالا جب کراچی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجا کرتا اور یہ عام بات ہوتی
گئی ۔ سڑک اچانک سنسان ہوجاتی اور دو گروہوں کے مابین خونخوار مقابلہ شروع ہوجاتا
۔ چند لاشیں وہاں گرتیں چند یہاں ۔ ہم رات کو سوتے تو اچانک ٹائروں کے چرچرانے کی آواز
سے آنکھ کھل جاتی ۔ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ گونجتی اور چند ہی لمحوں میں سناٹا چھا جاتا
۔ اور پھر ہماری آنکھ لگ جاتی ۔ یہ بے حسی کی جانب ابتداء تھی ۔ ہم صبح سو کر اٹھتے
اسکول یونیفارم میں باہر نکلتے تو سڑک پر لاش
پڑی ہوتی جس کے ہاتھ بندھے ہوتے اور سینہ چھلنی ہوتا ۔ ہم اس لاش کو یوں دیکھتے جیسے
کوئی بلی مری ہو ۔ پولیس ایمبولینس اور تماشایوں
کا ہجوم ہوتا اور ہم اسکول کی راہ لیتے ۔ گولیوں کا چلنا ، لاشوں کا گرنا ، شیعہ سنی
، ایم کیو ایم ، ایم کیو ایم حقیقی ، ہتھوڑا گروپ ، اور نہ جانے کیا کیا ۔ یوں ہمارا
بچپن گزرتا گیا ۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھنے سے پہلے ہی سینہ پتھر ہوتا گیا ۔ بھتہ
خوری عام تھی ۔ کاروبار شروع کرنا ، گھر بنانا
، آرائش ، شادی بیاہ ، غرض ہلکی سی چمک آپ کی
دہلیز پر دہشت گردوں کو کھڑا کرنے کے لیے کافی تھی ۔ تعلیمی اداروں پر بھی انہی چیزوں کا راج تھا ۔ ہم پانچویں جماعت میں تھے کہ آٹھویں کا لڑکا اور نویں جماعت
کے لڑکے کے مابین جھگڑے کی وجہ یہی پارٹیاں تھی ، خون دیکھ کر اسکول کے ان نازک اندام بچوں پر کوئی خوف طاری نہ ہوا ۔ انہی دنوں
ایک نوجوان ہمارے پڑوس میں قتل کردیا گیا ۔ کسی کو افسوس نہ ہوا ۔ خون یوں تھا جیسے
پانی ۔ آج کراچی میں خون کی بہتی ندیوں کو بھلے قرار آیا ہے ۔ مگر قانون نافذ کرنے
والے اداروں سے لیکر نادرا کی دہلیز تک کراچی کے لوگ آج بھی بے بس ہیں ۔ بھتہ خوری
آج بھی اسی ڈگر پر موجود ہے ۔ آپ کاروبار بنا کسی کو بھتہ دیے نہیں چلا سکتے
۔
کیا کراچی کو کبھی بھی اپنانے والے سیاستدان پیدا
نہیں ہونگے ؟
تھانے بھتے جمع کرنے کے ادارے بن چکے ہیں ۔
پولیس بھتہ خور ہے اور بھتہ لینےوالوں کی محافظ ہے ۔
عدل کے اداروں کی صورتحال سے کون ناواقف ہوگا
۔
کیا کراچی پھر کبھی علم و فن ، تہذیب و تمدن کا چمکتا ستارہ نہیں بن سکے گا ؟
وہ جو " علم " تہذہب " و ثقافت
" اس کی شان تھی ۔ کیا وہ پھر حاصل نہ کرسکے گا ؟
No comments:
Post a Comment