حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد
کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی
آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے
۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی
اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا
وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا
۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں
بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ
شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان
برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس
وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن
ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ
کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل
ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو
کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم
میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان کی پارٹی ہے ۔
میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف
میں کوئی روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ
نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی
سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے
رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے
۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء
کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت
ن لیگ کی جانب سے نامزد اور پاکستان کے منتخب
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات
ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے
انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت
بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں
خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا
ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے
فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے
نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا
ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ
اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی
احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا
تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص
رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی
ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن اپنے وزیر
اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے
میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش
کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا
ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی
بگڑنے کا مکمل امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار
شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں
۔ اس کے ساتھ ہی پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت
اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی
، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں
۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا
اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم
" جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment