گستاخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر شجاع
ایک چرچ کی دیوار پہ انجیل کی آیت کو مٹا کر اس پر لبیک یا
رسول اللہ لکھ دیا گیا ۔ جذبہ ایمان سر
چڑھ کر بولا ۔ بائبل کی آیت کے اوپر لبیک یا رسول اللہ ۔ ؟
وہ ایک بے سہارا ماں تھی ۔ جس کی حافظہ قرآن بیٹی کو "
بااثر افراد" اغوا کر کے لے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ؟ بالآخر
اسے قتل کردیا گیا ۔ ماں دہائی دیتی رہی ۔ قانون کے ادارے اس کی بے مائیگی
بے بسی پر ٹھٹھے اڑاتے رہے ۔ پر وہ ایک ماں تھی ۔ کسی طرح چند درد مندوں تک
اپنی بات پہنچا دی ۔ اور انہوں نے اس درد کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کی کہ اس بے بس ماں کوانصاف ملے ۔اس معصومہ
جس کے سینے میں کلام اللہ محفوظ تھا، جو اس پاک کلام سے اپنی صبح کیا کرتی
تھی اور شام کیا کرتی تھی ۔ جس کی زبان اس پاک کلام سے ہمہ وقت تر رہتی تھی ۔ اس
معصومہ کے ساتھ ان " بااثر افراد " نے ظلم و ستم کی حد کردی ۔ جسد مردار میں چند سانسیں بچی تھیں وہ بھی
بالآخر چھین لیں ۔۔
کوئی لبیک یا رسول اللہ نہیں ۔۔۔
کوئی ہجوم اکھٹا نہ ہوا ۔۔۔ کسی کے جذبہ ایمانی پر آنچ نہیں
آئی ۔ کسی صاحب ایمان کا جذبہ ایمانی نہ جاگا کہ ان ظالموں کو کیفر کردار تک
پہنچایا جائے ۔ وہ ظالم دندناتے پھرتے ہیں ۔ اور مظلوموں کو آنکھیں دکھاتے ہیں ۔
ان کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں ۔ مگر اصحاب ایمان کے ایمان کی حرارت ان کو متحرک نہیں کرتی
۔
کوئی لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
ساہیوال میں چرچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔ لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
جذبہ ایمانی کی حرارت ۔۔۔۔۔
پطرس مسیح کوئی غلط
میسیج فارورڈ کر دیتا ہے ۔ جس بنا پر عشق رسول کے دعوے دار سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔
اس کی پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ ہجوم
ہے اور شور ہے ۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ شعور ماتم کناں ہے
لبیک ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
گھروں کو جلانے کی
خواہش لیکر اصحاب ایمان کا دوڑپڑنا ۔۔ اور
یہ سب اس ایمانی جذبے کے تحت ہونا ، جو رحمت
اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ جن کے
عظیم اخلاق تا قیامت سرچشمہ حیات ہیں ۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دعوے کی بنیاد پر ۔۔۔۔
گھروں کو جلانا ؟
بے گناہ ، بھلے گناہ گار ہی کیوں
نہ ہوں ۔ کونسا ایمانی جذبہ ہے وہ کونسے اخلاق حسنہ ہیں جو گھروں کو جلادینے ، جیتے جاگتے انسان کو جلادینے کا درس دیتے
ہیں ؟
ایک پورا سماج اتھل پتھل ہوجاتا ہے ۔ اصحاب ایمان کے عظیم
اخلاق محبت کے پیامبر کے مقلدین خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ افراد کو
مجبور کردیتے ہیں کہ وہ دربدر پھریں ۔ وہ اخلاق حسنہ سے خوفزدہ ہوجائیں ۔
نبوی اخلاق ؟ ۔۔۔۔۔
مائیکل صاحب قانون پر اعتماد کرتے ہوئے لڑکے کو پولیس کے حوالے کردیتے ہیں ۔ پولیس کیا کرتی ہے ؟ وہی جو ہر ایک کے ساتھ کرتی ہے ۔ وہ پولیس جو ایک بے بس ماں سے کہتی ہے جاو جا
کر اپنی بیٹی چھڑا لو ۔ اور وہ ماں خون کے آنسو روتی ہے ، بلکتی ہے ، چیختی ہے
چلاتی ہے ، دیوانہ وار گھومتی ہے ، مگر کوئی ایمانی ہجوم اکھٹا نہیں ہوتا ، چہار
جانب قہقہے برستے ہیں ، اور شعور ماتم کرتا ہے ۔ ایسی پولیس کے لیے تو یہ کیس اور
بھی سہل تھا ۔ اس کی ہڈی پسلیاں ایک ہوتی ہیں ۔ اور شرمناک شدید شرمناک چہرہ دنیا
کے سامنے آتا ہے ۔
پولیس گردی ۔۔۔ لبیک ۔۔۔
کیا اب ہجوم اور ریاست میں ہجوم کا پلڑا بھاری ہو اکرے گا ؟
کیا انصاف کے ادارے
پکوڑے بیچا کریں گے ؟
سیاسی ادارے اقتدار کی جنگ لڑا کریں گے ؟
کیا چرچ کی دیوار پر اس مذہب کی مقدس آیت کو مٹانا ، بلاز
فیمی میں زمرے میں نہیں آتا ؟
سر عام میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے والے
علامہ بلازفیمی میں نہیں آتے ؟ جو گالی بھی دیتے ہیں اور اسے اخلاق نبوی سے ثابت
بھی کرتے ہیں ؟
کیا حب نبی کا
تقاضا یہی رہ گیا ہے کہ ۔ اس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ۔۔۔۔۔۔۔
گھروں کو جلایا جائے ۔ انسانوں کو راکھ
کیا جائے ۔ ان کا سانس لینا محال کردیا جائے ۔
یہ کم از کم میرے حبیب ۔۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ
وسلم کے اخلاق ہیں نہ ان کی تعلیمات ۔
مجھے افسوس ہے کہ جس بلند اخلاق بلند کردار ، محمد مصطفی ، احمد مجبتی ،
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کی جانب سے یہ سب ہو رہا ہے ۔ جن ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اخلاق یہ تھا کہ
وہ اپنے ازلی دشمنوں کو بھی معاف کردیا کرتے تھے ۔ وہ امت کی ہدایت کے لیے مبعوث
ہوئے تھے ۔ وہ تاریکی مٹانے آئے تھے ۔
ہدایت کی روشنی پھیلانے آئے تھے ۔ وہ عقل کو صحیح سمت میں گامزن کرنے آئے
تھے ۔ وہ دلوں کو مسخر کرنے آئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے
رحمت بن کر آئے تھے ۔ یہ سب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے ۔۔
مجھے افسو س ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔
No comments:
Post a Comment