پینٹنگ
شہیر شجاع
جمیل مسیح ۔۔ ہمیشہ ہنتے مسکراتے رہنا ۔ خوش رہنا ، بلا کا ظرف پایا تھا اس نے ۔ وہ مکینک تھا ۔ واشنگ مشین ، اے سی وغیرہ ٹھیک کرنا اس کا پیشہ تھا ۔ہم ایک تھالی میں کھانا بھی کھاتے ۔ ایک ہی گلاس میں پانی بھی پیتے ۔ یہ میرے لیے انوکھا تجربہ تھا ۔ کیونکہ بچپن سے کچھ الگ ہی ذہن بنا ہوا تھا ۔ جس کے بالکل برعکس میں چل پڑا تھا ۔ وہ جس دکان پر ملازم تھا اس کا مالک عظیم بھی میرا دوست تھا ۔ اسی کی توسط سے میں جمیل سے ملا تھا ۔ وہ صبح دکان کھولتا شام تک کام کرتا ۔ خواہ وہ دکان پر ہو یا کسٹمر کے گھر جا کرکام کرنا ہو ۔ وہ مکمل " ایمانداری " کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتا ۔ اتوار کو جب وہ صبح تیار ہوتا ۔ اور چرچ جانے لگتا تو ایک نہایت ہی معصوم اور پیارا سا مذہبی جذبہ اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ۔ میں مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔
اس دن ہمارا پکنک کا پروگرام تھا ۔ سوچا کہیں ساحل سمندر کی جانب چلا جائے ۔ کچھ ہلا گلا کیا جائے ۔ کچھ باربی کیو ، کچھ سمندر کے کھارے پانی میں ڈبکیا ں ۔ کہیں صیاد ہو کر صید مچھلی ۔ سو پچھلی رات تیاریاں مکمل کرکے ہم چار لوگ صبح سویرے نکل کھڑے ہوئے ۔ میں ، جمیل ، عظیم اور عظیم کے بزرگ والد جو کافی ضعیف اور بیمار بھی تھے ، اتنے کے اپنی شلوار صاف رکھنے پر اختیار کھو چکے تھے ۔ ڈرائیو عظیم کر رہا تھا۔
ڈیش بورڈ سے اوپر بیک مرر پہ آیت الکرسی لٹک رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی مختلف رنگوں کے امتزاج سے کوئی خوبصورت پینٹنگ بھی لٹکا رکھی تھی ۔ میری نظر جب بھی اس پینٹنگ سے ٹکراتی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ۔ وہ رنگ مجھے تحلیل ہوتے محسوس ہوتے ۔ مختلف رنگوں کا امتزاج آہستہ آہستہ کسی ایک رنگ میں تبدیل ہورہا ہو ۔ اور میرے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ کچھ تارے سے جھلملانے لگتے ۔
اس کے ساتھ والی سیٹ پر اس کے والد بیٹھے تھے ، جمیل اور میں پچھلی سیٹ پر براجمان تھے ۔ اس کے چہرے پر کچھ اداسی سی چھائی تھی ۔ جس کے اظہار سے وہ کترا رہا تھا ۔ جسے میں نے شدت سے محسوس کیا ۔ اس میں وہ ہمیشہ کی گرمی نہیں تھی جو اس کے چہرے سے پھوٹا کرتی ۔ اس کی حرکیات سے ماحول خوشگوار کیے رکھتی ۔
کیا بات ہے جمیل پریشان لگ رہے ہو۔۔۔؟
نہیں آزاد بھائی ٹھیک ہوں ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔
کچھ تو ہے ۔ جس کی پردہ داری ہے ۔ ہاں !!!!۔۔ میں نے قدرے خوشگوار انداز میں اسے چھیڑا ۔
تب بھی اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ عیاں نہ ہوسکی ۔ میں ٹھٹک گیا ۔ کچھ تو تھا جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔
جمیل کیا بات ہے ؟ تمہارے بھی کسی عزیز کا گھر جل گیا ۔ ؟
اس نے بے اختیار میرے چہرے کی جانب دیکھا ۔ اور اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک پڑے ۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ زور دیکر اپنی جانب کھینچا ۔ اس نے اپنا چہرہ میرے سینے میں رکھ دیا
اور بنا آواز بنا سسکیوں کراہوں کے رودیا ۔ بس اس کے آنسو تھے جو میری ٹی شرٹ بھگو کر میری چھاتی میں جذب ہورہے تھے ۔ وہ آنسو جیسے محض پانی نہ تھے ، کرچیاں تھیں جو میرے سینے میں چبھ رہی تھیں ۔ میرے پاس الفاظ نہیں تھے اسے دلاسہ دینے کے لیے ۔ یونہی چند لمحے گزرے اور مزید گزرے ۔
ابے انہی لوگوں نے پہل کی تھی ۔ آخر کو بھگتنا تو پڑے گا ۔ یہ عظیم کے الفاظ تھے ۔ جس پر جمیل نے سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے سینے میں دبوچے رکھا ۔ کرچیاں کچھ زیادہ بڑھ گئیں ۔
یار عظیم ، جرم کا حساب عدالت میں ہوتا ہے ۔ صحیح غلط کے فیصلے کے لیے عدالتیں موجود ہیں ۔ قانون کے ادارے موجود ہیں ۔ کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سر راہ کسی کو بھی نقصان پہنچائے ۔ اور یہ تو ایک گھر نہیں پورا محلہ جلا دینا ۔ نہ جانے کس مشقت سے ، تنکا تنکا جوڑ کر گھر بنایا ہوگا ۔ انہیں بے گھر کردینا ۔ یہ کہاں کے اخلاق ہیں ؟
میں نے کچھ اپنی دانش جھاڑنے کی کوشش کی ۔
ابے تجھے کیا پتہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ صلی اللہ کا ۔۔ اللہ کچھ زور دے کر اس نے کہا ۔
گاڑی دھپ سے اچھل پڑی ہم سب ہل کر رہ گئے ۔ عظیم باتوں میں اس جمپ کو دیکھ نہ سکا تھا ۔ ساتھ وہ آیت الکرسی اور پینٹنگ لرز کر رہ گئے ۔ پینٹنگ کے رنگ جیسے یہاں وہاں بکھر رہے ہوں ۔ جن میں سرخ رنگ نمایاں محسوس ہوتا تھا ۔
تو کیا اس کی سزا تم دو گے ؟ وہ بھی ان کے گھر جلا کر ؟ انہین بے گھر کر کے ؟ ان کے زندہ سلامت جسد کو سوختہ لاش بنا کر ؟ یہ تو ظلم کی حد ہے ۔ یہ کوئی انصاف کے ایک ذرے کا تقاضا بھی پورا نہیں کرتا ۔ تمہیں اگر اتنی محبت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ گستاخ کو سمجھاتے اس کی ہدایت کی جلن لیکر اٹھتے کہ وہ نہیں جانتے ۔ یہی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں ۔ میں نے بھی صلی اللہ کے اللہ پر کچھ زیادہ زور دے کر بھاشن دے ڈالا ۔
جمیل نے پھر سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے وہیں سینے سے لگے رہنے پر مجبور رکھا ۔
ابے جا بڑا آیا لبرل بننے والا ۔ تیرے دل میں تو عشق رسول ہے ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو ، تو نے یہ نہ کہنا تھا ۔ بلکہ ان کے گھر جلانے والوں میں تو بھی شامل ہوتا ۔ گستاخ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ۔ عظیم نے میرا تمسخر اڑایا ۔
پھٹ پھٹ پٹ پٹ ۔۔ پڑڑڑڑڑ ۔۔۔
چھی ۔۔ شٹ ۔۔ ابو یہ کیا کیا ؟ کم از کم بتا ہی دینا تھا ۔ میں گاڑی کھڑی کردیتا ۔ ساری گاڑی گندی کردی ۔
عظیم نے گاڑی کچھ آگے جا کر ایک جانب روکی ۔ سڑک سنسان تھی ۔ اکا دکا گاڑیاں زن سے گزر جاتیں ۔ میں اور جمیل باہر نکلے ۔ عظیم پہلے ہی ابوکی جانب کا دروازہ کھول چکا تھا ۔ اور انہیں باہر نکالنے کی سعی کر رہا تھا اور اس پھیلی ہوئی غلاظت سے ناک بھوں چڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھنا چاہتا ہو ۔ میری بھی اب تک ہمت نہ ہوئی تھی کہ پاس جاتا ۔ جمیل مسیح آگے بڑھا اور ابو کو سکون سے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔ جیسے وہ اسی کے باپ ہوں ۔ وہ انہیں اٹھا کر کچھ دور لے گیا ۔ اسی دوران میں پانی کی بڑی بوتل ڈگی سے نکال کر ان کے پیچھے چل پڑا ۔ عظیم ایک جانب کھڑا ۔۔ شٹ ۔۔ شٹ کرتا رہ گیا ۔
جمیل نے ان کے کپڑے اتارے، میں دوڑ کر چادر لے آیا جو انہیں اوڑھا دیا۔جمیل نے ان کپڑوں کو دھویا ۔ ان کے جسم کی غلاظت کو صاف کیا ۔ اس دوران اس کے چہرے پر ہلکی سی بھی کوئی بدمزگی پیدا ہوئی ہو ۔ نہایت اطمینان سے اس نے یہ سارے کام انجام دیے ۔
ابے جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔ عظیم کے چیخنے کی آواز آئی ۔ جمیل اور میری آنکھیں چار ہوئیں ۔ اس کے چہرے پر پر خراش مسکراہٹ تھی اندر کہیں اداسی سرسراتی تھی ۔ میری آنکھیں زیادہ دیر اس سے ہمکلام نہ رہ سکیں اور جھک گئیں ۔ ویسے ہی گیلے کپڑے ابو کو پہنائے اور ہم دونوں کندھوں کا سہارا دیکر انہیں گاڑی تک لے آئے ۔
ابو کو میں کندھے پر سہارا دیے رکھا ۔ اس دوران جمیل نے سیٹ صاف کردی ۔پھر انہیں گود میں اٹھایا اور قدرے مشکل سے انہیں اگلی سیٹ پر بٹھا دیا ۔
میری نظر سرکتی ہوئی پینٹنگ کی جانب گئی جو اس زور آزمائی پر گاڑی کے لرزنے کی وجہ سے دائیں بائیں ہلنے لگی تھی ۔ رنگوں کا امتزاج خوشنما تھا یا بدنما میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا ۔
ابھی سفر باقی تھا ۔ ہم پکنک منانے نکلے تھے ۔
ہم نے سمندر میں ڈبکیاں لگانی تھیں ۔ باربی کیو کرنا تھا ۔
صیاد مچھلی ہونا تھا ۔
گاڑی آگے کو دوڑتی جاتی تھی ۔ آیت الکرسی اور وہ پینٹنگ دائیں بائیں ہلتی تھیں ۔ رنگوں کا امتزاج پر تحلیل نہ ہوتا تھا ۔ میرا تصور کہیں منجمد ہوگیا تھا ۔
No comments:
Post a Comment