Monday, April 9, 2018

معاشرتی زوال

معاشرتی زوال
شہیر شجاع
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔  پاکستان جب معرض وجود  میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین  کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ   دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس  خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن  اور دلوں میں حسد نے  جگہ بنالی ۔ 
۔ تخریب ہمیشہ داخل سے ہی شروع ہوا کرتی ہے خواہ خارج   سے  نیت و عمل شامل ہو یا نہ ہو ۔ داخل سے جب تک رضا شامل نہ ہو تخریب کا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مختلف صورتوں میں اس خطے میں تخریب کاروں نے اپنا عمل دخل قائم کیا اور مختلف پہلووں پر اپنے اثرات کا نفوذ کیا ۔ معاشرے  کی ہر ہر قدر کو نشانہ بنایا  جاتا رہا جس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ سماج سے تعلیمی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی قدریں  اپنی توانائی کھونے لگیں ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہر ذہن کسی نہ کسی مقام پر " بزعم خود" والی صورتحال کا شکار ہے ۔ ہر فکر کا حاصل انتہا ہے ۔ اختلاف کا مطلب قتل ہے ۔ اقرار کا مطلب اطاعت ہے ۔ انکار کا مطلب ارتداد ہے ۔ غرض سماج اپنی سب سے اعلی قدر " عقل" سے محرومی پرنازاں ہے ۔
یہاں آج بھی ستر سال پہلے کے واقعے پر سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ اور ہزار سال  پہلے کے واقعے پر " پر  مغز " بحث ہونے کے بجائے " پر بغض " بحث ہوا کرتی ہے ۔  فکر کا جوہر " انتہا" ہوچکا ہے ۔
" فرد سے لیکر طبقات تک ، ہر ایک  مخالف پر تنقید کے لیے دیوان پر دیوان لکھ سکتا ہے ، مگر تعمیر کے لیے اذہان خالی ہیں ۔ "

    

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...