Thursday, April 5, 2018

میرا جسم میری مرضی


میرا جسم میری مرضی 
شہیر شجاع
بلال الرشید صاحب فرماتے ہیں ۔ "انسان ایک جنگل میں جائے وہاں ایک خوبصورت اور پیچیدہ عمارت کھڑی ہو تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہاں کوئی ذہین مخلوق تھی ، جس نے یہ عمارت بنائی ۔ انسان ہر کہیں ڈھونڈتا ہے ، اسے کوئی نہیں ملتا ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اس عمارت سے فائدہ اٹھاوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ یہ عمارت خودبخود بنی ہے کیونکہ  اگر کسی معمار اور کسی مالک کی موجودگی تسلیم کرلی گئی  تو پھر انسان اسے استعمال تو نہیں کرسکتا ۔ اسے یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ جیسے ہی اصل مالک آیا ، عمارت خالی کرنا پڑے گی ۔ اسی طرح ہمارے جسم کی جو پیچیدہ عمارت موجود ہے ، یہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی موجودگی تسلیم کر لیں تو پھر آپ کو اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔ بیٹھ کر پانی پینا ہے ، بسم اللہ پڑھ کر لقمہ توڑنا ہے ۔ حلال ذرائع سے کمانا ہے ۔ انسان للچا کر یہ سوچنے لگتا کہ کیوں نہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے ۔ اس طرح اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکوں گا ۔ خدا کون سا سامنے کھڑا احکامات دے رہا ہے ۔ نہ ہی  کوئی فوری سزا ہے ۔ "
مگر یہاں دعوی  ملحد کی جانب سے نہیں بلکہ مومنات کی جانب سے وارد ہوا ہے ۔  یہ اس امر کی دلیل ہے کہ " حیا جو رخصت ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ایمان بھی لے جاتی ہے  " ۔   حیا نہ صرف ایمان ، بلکہ معاشرے کی چولیں ہلا دیتی ہے ۔ تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے ۔  عالم مغرب میں حقوق نسواں کی تحاریک نے زور پکڑا اس تحریک کو  کامیابی ملی ۔   صنف نازک جو چاہتی تھی اسے مہیا کردیا گیا ۔ فرق بس اتنا ہے پہلے عورت ایک دو یا تین مردوں  کی زیادتی سہتی تھی ، اب  وہ کئی مردوں کی زیادتیاں  بخوشی قبول کرتی ہے ۔   یعنی " میرا جسم میری مرضی " ۔
انسان  ہمیشہ غلبے کی خواہش تلے ہی مارا جاتا ہے ۔ یہاں تک آخری صورت میں الحاد کی رسی کو تھام کر مطئن رہنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہوئے رخصت ہوجاتا ہے ۔   

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...