مذہب
کارڈ
شہیر شجاع
آج کل مذہب کارڈ
پر زور و شور سے بحث جاری ہے ۔ ہر کس و ناکس اس بحث میں حصہ لے رہا ہے ۔ سب سے اہم
پیش رفت یہ ہے کہ اس بحث میں نامی گرامی "علم والے " حضرات بھی شامل ہیں
۔ اس بحث کی ابتداء مولنا فضل الرحمن صاحب
کے ملین مارچ سے شروع ہوئی ۔ اس بحث
کے فی الحال دو گروہ ہیں ۔ ایک پی ٹی آئی
۔ دوم جے یو آئی ۔
جے یو آئی اور
ان کے بیانیے سے اتفاق کرنے والے کہتے
ہیں کہ عمران خان کا " مدینے کی
ریاست " کا نعرہ ،
ہاتھ میں تسبیح
اور" ایاک نعبد وایاک نستعین"
سے اپنی تقاریر کی ابتداء اور ہر جلسے سے پہلے تلاوت قرآن پاک ۔۔ یہ سب
مذہبی کارڈز ہیں ۔۔
ہم اس پہ غور
کرتے ہیں کہ کیا یہ واقعی ایسی مثالیں ہیں
جنہین مذہب کا ناجائز استعمال اور نتیجتا مذہبی استحصال کہا جا سکتا ہو ؟ یا ان
اعمال سے مذہب اور مذہبی سوچ کا استحصال
ہوتا ہو ؟
مدینے کی ریاست
کیا ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ
علیہ والہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زیر
اثر ریاست کا دھانچہ ہے ۔ اس کو عدل و انصاف ،
باہمی مساوات ، دردمندی ، دیانت
داری کے استعارے کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اور اغلب گمان یہی ہے کہ اس کے
یہی معانی ہونگے ۔ اگر چہ یہ اس کا اپنا نعرہ
ہے اس سے کسی دوسرے کی ذات کا یا کسی بھی طبقے یا خاص گروہ کے جذبات کا استحصال
نہیں ہوتا تو اسے مذہبی کارڈ نہیں بلکہ سیاسی نعرہ کہنا درست ہوگا ۔ جس پر عمل
درآمد اس
پر واجب ہوگا اور اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتا ہے تو عوام کے سامنے وہ
جوابدہ ہوگا ۔ اسی طرح عمران خان کا ہاتھ میں تسبیح لینا اس کا ذاتی عمل ہے ۔ اس کی نیت تک رسائی صرف اللہ پاک کو ہے ۔ کہ اس
نے کس نیت سے تسبیح ہاتھ میں رکھی ہے اور اس تسبیح کو لیے وہ امریکہ جیسے ملک کے
دورے تک کر لیتا ہے ۔ اگر نیت پر شک کرنا
حاصل گفتگو ہے پھر تو یہ مذہب کارڈ ہے
وگرنہ یہ سراسر مذہب کے ساتھ زیادتی ہے کہ تسبیح ہاتھ میں لینے کو مذہب کارڈ کہا
جائے اور آئندہ سیاسی شخصیت کا تسبیح ہاتھ میں لینا " کفر" سمجھا جائے ۔ اسی طرح ایاک
نعبد وایا ک نستعین جیسی مبارک آیت کو
ابتداء بناکر عوام کو ایک نیک شعورکی جانب راغب کرنا (خواہ وہ قصدا ہو یا
نہ ہو ) مذہب کارڈ ہے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسے سیکولر نظام کی
بات کر رہے ہیں جہاں اللہ کا نام لینا
سیاست میں ناجائز ٹہرا لیا جائے ۔
کیا یہ مذہبی جماعتیں اور ان کے چاہنے والے بذات خود ایک گھڑا نہیں کھود
رہے ؟
اب آتے ہیں
مذہبی جماعتوں کی جانب سے استعمال ہونے والے مذہبی کارڈز کیا ہیں ؟ مولانا فضل الرحمن
صاحب فرماتے ہیں عمران خان یہودی ایجنٹ ہے ؟ اس کے بعد ایک غلغلہ برپا ہوتا ہے کہ
عمران خان کا خاندان قادیانی ہے اور یہ قادیانیت نواز حکومت ہے ۔ عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا اور اسی طرح
قادیانیت سے مربوط کرنا کیا یہ بہتان
طرازی نہیں ؟ اسی طرح نظام مصطفی ریلی کا
انعقاد کرنا ۔ اور ایسی ریلیوں کو حکومت مخالفت کے لیے استعمال کرنا کیا مذہبی
کارڈ کا درست استعمال ہے ؟ یہ سوال میں آپ پر چھوڑ تا ہوں ۔ اور چند گزارشات اپنی جانب سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو
منطقی اور شعوری سطح کے ساتھ انصاف پر
مبنی ہو ۔
مذہبی کارڈ
دراصل اسی بہتان طرازی اور ریاست کے
آئین کی مخالفت اور عام آدمی کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اس کے
استحصال کا نام ہے ۔ جس سے سماجی شعور میں
ایک پراگندگی پیدا ہو ۔ اور اجتماع " مذہبی " بنیاد پر گروہوں میں بٹ جائے
۔ اس کی ایک عام فہم مثال جے یو آئی سے
لیکر جماعت اسلامی تک کے سیاستدانوں کے خطابات سے لی جا سکتی ہے ۔ جہاں وہ اپنے مخالفین کو
" طاغوت " کہتے ہیں ۔ مدارس کے طلباء اور ان جماعتوں سے جڑے افراد کا شعوری استحصال
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ اپنے مخالفین کو
طاغوت سمجھنے لگیں ۔ جس سے ایک خلیج ہے جو
بڑھتی جاتی ہے ۔ اسی شعور کوابھار کر کبھی نظام مصطفی ریلیاں نکلتی ہیں ، کبھی
حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے
سیاسی اجتماعات ہوتے ہیں ۔ ہمیں
مذہبی جماعتوں سے یہی گلہ ہے کہ ایسا نہ ہو کسی دن وہ خود ہی سیکولر نظام کی بنیاد رکھ دیں ۔ اور اللہ کا نام لینے والا
سیاسی زبان میں " طاغوت" کہلائے
۔
آپ بھی " نبوی عدل و انصاف " کے نعرے لگائیں
۔ سود سے پاک نظام کا نعرہ لگائیں ۔ روٹی ، کپڑا مکان کا نعرہ لگائیں ۔ مگر مذہب
کا کم از کم درست استعمال کریں ۔ مذہب
کارڈ کا مطلب "الزام تراشی " یا مذہبی جذبات کو ابھار کر کسی کی مخالفت
پر افراد کو مجبور کردینا نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ عمران خان کے ہی جیسا آپ
بھی مذہب سے جڑے ایسے نعرے پیش کریں جس میں عوام کو اپنی فلاح و بہبود نظر آئے ۔
تہذیب کی ابتداء
کسی جانب سے تو شروع ہونی چاہیے ۔ اور وہ یہ ہے کہ تنقید و اختلاف کے الفا ظ " تمسخرانہ " و " استہزائیہ " نہ ہوں ۔
بلکہ قبول و رد میں دلیل کار فرما ہو ۔ تب ہی
باہمی روابط میں شایستگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ ورنہ کدورتیں تو موجود ہیں ہی ۔ بڑھتے بڑھتے یہ تشدد سڑکوں
پر عام نہ ہوجائے ۔