شہیر شجاع
میں نے انجینئر بننا ہے ۔ میں تو ڈاکٹر بنوں گا ، نہیں بھئی میں تو اکنامکس پڑھوں گا کیونکہ بابا کہتے ہیں بڑے آدمی بڑا سوچتے ہیں۔۔ اور وہ چاروں زور سے ہنس پڑے ۔ اور میں پائلٹ بنوں گا ۔ ندیم جو خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا قہقہوں کے درمیان اپنےدل کی بات کہہ بیٹھا ۔ بھئی بڑے ٹھاٹھ ہوتے ہیں پائلٹ کے ۔
اکثر یہ دوست بیٹھے اسی طرح اپنے مستقبل کی پلاننگ کرتے اور دلوں میں امنگیں اور آنکھوں میں خواب سجائے اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوجاتے ۔
دن گزرتے گئے سب اپنی اپنی زندگیوں میں آگے بڑھتے گئے اور ندیم بھی کالج میں آگیا ۔ جہاں صبح و شام اسے اپنے خواب کی تکمیلکے لیے اچھے گریڈ کا ڈراونا بھوت دکھائی دیتا جسے اس نے مر کر جی کر حاصل کرنا تھا ۔ ورنہ اس کا اونچائیوں میں اڑنے والاخواب ادھورا رہ جاتا یہ خیال ہی اسے مایوس کردیتا ۔
ندیم ایک متوسط گھرانے کا فرد جہاں بمشکل گھر کے اخراجات پورے ہوتے ۔ اس کے آس پاس ماحول بھی حوصلہ افزا نہ تھا مگر وہیماحول اسے احساس دلاتا تھا کہ زندگی ان کوٹھیوں میں ہے ان محلؔوں میں نہیں ۔ اکثر اس موضوع پہ اس کی عرفان سے بحث بھیہوجاتی جو اس سے متفق نہیں تھا ۔
ندیم نے محنت جاری رکھی ۔ محرومیوں اور خواب کا تال میل اسے مزید قوت فراہم کرتا اور وہ منزل بہ منزل آگے بڑھتا گیا ۔ یہاں تککہ ایک دن جہاز کا کاک پٹ اس کے حوالے تھا ۔ اس دن تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ اس کے والدین نے اس کے لیےخصوصی عبادتوں کا اہتمام کر رکھا تھا اس کے دو چھوٹے بھائی بہن بھی خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے کہ ان کے بھائی ابجہاز اڑائیں گے ۔ اس نے وردی پہنی اور والدین کی دعائیں لیتا ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھوڑتا نکل گیا ۔
وہی دن ہیں وہی موسم ہے مگر وقت بدل گیا ہے ۔ الارم کی آواز سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ۔ شاور سے فارغ ہوکر اپنی وردی پہنی اسدوران وہ کوئی گیت گنگناتا رہا ۔ نیچے بیگم بیٹی ڈائننگ پہ اس کا انتظارکر رہے تھے ۔
پاپا پچھلی مرتبہ بھی آپ کا شیڈیول نہیں بنا تھا اور ہم کہیں گھومنے نہیں تھے ۔ اب پھر میری چھٹیاں ہونے والی ہیں ۔ اب تو آپ کےبہانے نہیں چلیں گے ۔
سدرہ جو دل میں غصہ لیے بیٹھی تھی ۔ پاپا کو دیکھ کر نکال بیٹھی ۔
ٹھیک ہے بیٹا میں ابھی سے چھٹیوں کی درخواست دے دیتا ہوں ۔ ویسے بھی ہمارے جہاز آج کل ٹھیک نہیں رہتے ۔ کسی طرح چھٹیاںپکی کرلوں تو ہم چلتے ہیں کہیں باہر ۔
میں تو پیرس جاوں گا ورنہ میں نہیں جاوں ۔
بیگم کی تو لاٹری نکل پڑی ۔
ندیم کا قہقہہ بلند ہوا ۔ ہاں ٹھیک ہے پکا ۔
اس نے منہ پونچھا ، بیٹی کو پیار کیا بیگم کو الوداع کہا ۔ اور باہر گاڑی اسٹارٹ کی اور ائر پورٹ کے جانب روانہ ہوگیا ۔
باہر موسم بہت سہانا تھا ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ صاف ستھری سڑکیں ۔ دونوں جانب خوبصورت بنگلے ، ہلکی پھلکی ہریالی اسنے گاڑی کا سی ڈی پلئر آن کردیا ۔ موسم اور موسیقی کے امتزاج سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ائر پورٹ پہنچا ۔
اس کا عملہ مستعد تھا اور وہ کاک پٹ میں بیٹھا مستقبل کی منصوبہ بندیاں کر رہا تھا ۔
کئی مرتبہ اس نے اپنے عہدیداران سے شکایت کی تھی کہ جہاز میں تکنیکی مسائل ہیں پر انہیں اب تک مکمل طور پر درست نہیں کیاگیا تھا ۔ آج بھی ویسی ہی صورتحال تھی پر اب وہ عادی ہوگیا تھا ۔ خیال یہی تھا کہ جیسے پہلے سفر مکمل ہوتا رہا اب بھی ہوتارہے گا ۔
فلائٹ تیار تھی ۔ وقت مقررہ پر اسے سگنل ملا اور اس نے جہاز کو رن وے پہ سرکادیا ۔ اب وہ ہوا میں بلند تھا بظاہر سب ٹھیک تھا ۔ہزاروں فٹ کی بلندی میں اس کی معیت میں کوئی سو مسافر اور تھے جن کی آنکھوں میں کئی خواب انگڑائی لے رہے تھے اور انخوابوں میں ڈولتے اپنے آپ میں ہی وہ چشم تصور میں مسکراتے جو ان کی آنکھوں سے عیاں ہوجاتی ۔ ان سب نے مہنگا ذریعہ سفراختیار کیا تھا ، اسباب مختلف ہوسکتے ہیں مگر مقصد ایک ہی تھا کہ منزل پہ پہنچنا ہے ۔ یہ ذریعہ سفر ان میں اکثر کے اسٹیٹس کےلیے بھی ضروری تھا ۔
ندیم نے مسافروں کو بیلٹ باندھ لینے کا مشورہ دیا کہ اب بس وہ منزل مقصود تک پہنچنے لگے تھے ۔ سارے مسافروں میں خوشی کیلہر دوڑ گئی اور وہ بیلٹس باندھنے لگے ۔ پورے جہاز میں کھڑاک کی آواز گونج گئی ۔
ابھی یہ آوازیں خاموش ہی ہوئی تھیں کہ جہاز ڈگمگانے لگا اور گڑگڑاہٹ کی آواز سے جہاز لرزنے لگا ۔ جہاز ندیم کے قابو سے باہرہونے لگا تھا ۔ پہلے چھوٹے مسائل نے سر اٹھایا اور رن وے سے چند میٹر پہلے کے دونوں انجنوں نے کام کرنا بند کردیا ۔ جہاز میں اللہاکبر ، کلمہ طیبہ کی صدائیں اک خوفناک کرب کی آویزش کے ساتھ پھیلی ہوئی تھیں ۔ ندیم کے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہورہی تھی ۔اس کی آنکھوں کے سامنے بیگم اور سدرہ کی تصویریں فلم کی طرح چل رہی تھیں ۔
اور ایک دھماکے کے ساتھ وہ ساری فلمیں ، وہ سارے خواب ، وہ ساری خواہشیں جل کر راکھ ہوگئی۔ ۔
خواب دکھانے والوں نے سو جانیں جلا کر راکھ کردی تھیں ۔