زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کتنا ہے ؟
جواب ملے گا اگلے لمحے کا کیا بھروسہ ۔ یہ ایک یقین ہے تصور ہے خیال ہے یا عقیدہ ۔ بہرحال ایک ذہنی مسلمہ ہے ۔ مگر انسان کےاحساس سے احوال میں شامل نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہلت کی پیچیدگیوں میں غلطاں انسان انجان منزلوں کی جانب رواں دواں ہے۔ ابھی اک وبا کا زور ہے یا شور پتہ نہیں ۔ کیونکہ مرض کے ہونے پہ تو یقین ہے پر اس کی تباہی کی صورتحال معلوم میں پیچیدہ ہے ۔ایک غیر یقینی صورتحال ہے ۔ ساری دنیا کی معیشت لپیٹ دی گئی ہے ۔ جو میڈیا انسان کی کٹی پھٹی لاش دکھاتے ، دلسوز و جگرپاش مناظر دکھانے سے نہیں شرماتا وہ بھی اس وبا کے متاثرین کو دیکھنے سے قاصر ہے ۔ دنیا وبا سے کیا متاثر ہوتی اس “ شور “ نے ذہنی و روحانی طور پر مفلوج کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایسے میں جو کام کرنے کے ہیں اسی میں اتنی نا اہلی ہے اورذمہ داری سے گریز ہے جہاں آئے روز انسانی جان محض غیر ذمہ داری کی وجہ سے زمین برد ہوجاتی ہے ۔ کبھی سڑک پر تڑپ تڑپکر تو کبھی اگر ہسپتال میسر آجائے تو اس کے بستر میں سسک سسک کر ۔ تو کبھی جل کر راکھ ہوکر ۔ نہ کوئی مجرم ہے نہ کوئیمسیحا ۔ سب ہی مریض ہیں سب ہی ملزم ۔
ان خوابوں سے سجی ہوئی آنکھوں کو بے نور کس نے کیا ؟ ان امنگوں بھرے دلوں کی دھڑکنیں کس نے بند کیں ؟ عید جیسی خوشیایسی وبائی شور کی ذہنی و روحانی اذیتوں سے نکل کر اگر اپنوں میں محسوس کرنے کی خواہش کرلی تو کیا برا کیا ؟
یہ حادثہ نہیں تھا یہ قتل تھا اجتماعی قتل ۔
No comments:
Post a Comment