جھانسہ
شہیر شجاع
یہ میں ہی تو ہے جو انسان کے اندر کے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔
جہاں وہ خود اذیتی کے مراحل سے گزرتا ہے
تو اس کا سبب اس کی ذاتی خواہشات کی ناآسودگیاں ہوتی ہیں ۔ اس کی جبلی تشنگیاں
ہوتی ہیں ۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ اسے اگر پڑھنا ہے تو اس لیے کہ وہ سماج میں
اونچا مقام حاصل کرسکے اور اس کے حصول کے لیے اسے کسی اونچے عہدے تک پہنچنا ہوگا
جہاں بیٹھ کر وہ اپنا بینک بیلنس پھیلا سکے اور آسائشات زندگی کو اپنے زندگی میں
شامل کرسکے ۔ اور یہ فکر اس طرح پروان چڑھتی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہی
جبلتوں کی تسکین بن کر رہ جاتا ہے ۔ اور اسے ہر پرآسائش انسان اپنے سے بہتر محسوس
ہوتا ہے ۔ ہر "مادر پدر آزاد" انسان میں اسے آزادی نظر آتی ہے ۔ اور پھر
اس قسم کا نعرہ جنم لیتا ہے " میرا
جسم ، میری مرضی " ۔ جب اسے کہا جاتا ہے کہ تمہاری عزت ، احترام ، وجہ تقدیر
، سبب محبت اور توقیر ذات تو بہن ، بیٹی ،
بیوی اور سب سے بڑھ کر "ماں" ہونے میں ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے "
ان سب میں ، میں کہاں ہوں ؟" اس ذات
کے پیچاک میں غلطاں و پیچاں انسان اس حقیقت سے بھی ناآشنا ہوجاتا ہے کہ انسان کی
پہچان و قدر ہی اجتماعی ہے ۔ افراد میں تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ،ورنہ رہبانیت
بری کیوں ہوتی ؟ دنیا میں خاندان کا وجود
ہی کیوں ہوتا ؟ ریاستیں ہی وجود میں نہ آتیں
اور نہ ہی تہذیبوں سے ہم آشنا ہوتے ۔ یہ انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو باہم
مل کر "ایک تہذیب" کی تشکیل کرتا ہے ، ہر شخص کی شناخت اس کی ذات سے
نہیں اس کی تہذیب سے ممکن ہوتی ہے ۔ اگر کسی شخصیت میں سو گن ہوں اور انہیں سراہنے
والا ہی کوئی نہ ہو تو ان کمالات کا کیا فائدہ ؟ نہ ان کمالات سے اس کی اپنی ذات
کو فائدہ اور نہ دوسروں کو ۔ بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں ہونے میں جو احترام ، توقیر
و قدر ہے وہی بھائی ، بیٹے ، شوہر اور باپ ہونے میں ہے ۔ انسان کی انفرادی حیثیت
میں کیا شناخت اور کیا اخلاقی قدر ہوسکتی
ہے ؟ اس "میں" کے جھانسے سے نکل کر حقیقت میں اپنے آپ کو ، اپنی حقیقت
کو پہچاننا نہایت ضروری ہے ۔ ورنہ یہ میں
درحقیقت جو "نفس" ہے جسے رب تعالی شانہ نے انسان کا ازلی دشمن قرار دیا
ہے ، اس نے برباد کردینا ہے ۔