رومانوی تصورات اس کے قاتل ہیں
شہیر شجاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چلی جارہی تھی ،اس وادی کی جانب
جہاں اسے نجات نظر آتی تھی ۔ اس کا ذہن رومانوی تصورات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ۔
وہ محسوس کر رہی ہوگی کہ اسکے ندی میں
کودنے کے بعد وہ پانی ہوجائے گی اور ندی کی طرح بہتی رہے گی ، یا ہوا میں تحلیل
ہوجائے گی اور اڑتی پھرے گی ، اپنے اداس والدین کو تھپکیاں دیا کرے گی ،اپنے شوہر
کی بے بسی دیکھا کرے گی ، اپنے ستانے والوں کودکھی دیکھ کر مسکرایا کرے گی ، اونچے
پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوئے گی اور سمندر کی گہرائیوں میں موتیاں چنے گی ، صبح و
شام کی مسرتیں سمیٹے گی ،"خدا سے شکوے کرے گی کہ اسے ایسا کیوں بنایا ؟"
انہی سوچوں میں گم اس کے قدم آگے کی جانب بڑھتے جا رہے تھے ۔ اک سرد لہر اس کے بدن
میں دوڑ جاتی تھی ۔ "میدان کارزار میں شہادت کے طالب کے تصورات کی مانند کہ
اس کی جان جان آفرین کے سپرد ہو رہی ہے ، اور اس نے ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوجانا ہے
۔ "وہ مسکرائی ہوگی ۔ اس کے اندر موجود نفسانی برتری کی خواہش نے انگڑائی لی
کہ ہر نفس خود پسند ہوتا ہے اسے اپنی بڑائی سننا اپنی تعریف سننا پسند ہوتا ہے ۔
شاید اسی نفسیات کے تحت اس نے ندی کنارے سیل فون نکالا ہوگا اور ویڈیو بنانے لگی ہوگی۔
جس میں وہ اپنی موت کی ذمہ داری سے ہر ایک کو سبکدوش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے
۔ ایک ایسا تضاد جس میں آج ہمارا تمام معاشرہ مبتلا ہے ۔ اس کے والدین اسے زندہ
رہنے کی ناکام تلقین کر رہے ہیں ۔ مگر اس کو موت کے بعد کے نجات کا تصورمرنے پر
ابھار رہا ہے ۔ اس کے ذہن میں سینکڑوں بالی ووڈ فلموں کی مناظر چل گئے ہونگے ۔
بالآخر انہی کسی منظر کے تصور میں وہ پانی میں کود گئی ہوگی ۔ اور جب پانی اس کے
پھیپھڑوں میں جانا شروع ہوا ہوگا وہ تلملائی ہوگی اس نے جان ماری ہوگی کہ کسی طرح
وہ یہاں سے نکل آئے اور جب اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہونگی اور اس کی روح کھینچی جا
رہی ہوگی تو اسے اپنے ماں باپ کی تلقین ضرور یاد آئی ہوگی ۔
مگر وقت گزر چکا تھا ۔
"معاشرتی و سماجی
ناانصافیاں ساری دنیا میں موجود ہیں ۔ اس
کی صورتیں مختلف ہیں ۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ لڑکی کو خود مختار ہونا چاہیے ۔ یہ
لڑکی بھی خود مختار تھی ۔ جاب کرتی تھی ۔ اپنی زندگی خود گزار سکتی تھی ۔ اسے ایسے
سسرالیوں یا شوہر کی ضرورت نہیں تھی جو اس کی زندگی میں زہر گھول دیں ۔ مگر اس کے
باوجود اس نے کونسا رستہ اختیار کیا ؟ اور کیوں ؟
احمد جاوید صاحب نے تہذیب کی کیا عمدہ تعریف فرمائی ہے ۔ ہر تہذیب دو عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تصور حقیقت اور تصور غایت ۔ یہی دو بنیادی عناصر تہذیب کی تشکیل کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہماری تہذیب ہمارے ہاتھوں ہی مٹ رہی ہے ۔ ہماری تہذیبی فکر میں "تصور حقیقت " و "تصور غایت " نہ صرف دھندلا گیا ہے بلکہ اس پر رنگ برنگی لیپا پوتی بھی ہوگئی ہے ۔
No comments:
Post a Comment