اقتدار کا کھیل
شہیر شجاع
اکثر دو مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران
کی باہم ملاقات کی ہنستے مسکراتے تصویر نظر آتی ہے تو خیال گزرتا ہے کہ یہ جو ڈائس
پہ کھڑے ہو کر مکے لہرا کر عوام کے سامنے مخالف کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں ، عام
آدمی کے دلوں میں اک نفرت بیدار کر رہے ہوتے ہیں ، تو کیا یہ بس سیاسی پوائنٹ
اسکورنگ ہوتی ہے ؟ اور ان کی جماعت کو
چاہنے والوں میں اضافہ ہو ۔ یا واقعتا ان کے بھی دلوں میں مخالف سے نفرت موجود
ہوتی ہے ؟ اگر دلوں میں نفرت ہونے کے باوجود جو یہ ہنستے مسکراتے مل رہے ہوتے ہیں
، کیا یہ منافقت ہوتی ہے ؟ محض ڈھکوسلا اور دکھاوا ؟
پہلے زمانوں میں اقتدار کی جنگیں
تلواروں کے سائے میں ہوا کرتی تھیں ۔ جو اقتدار کے خواہش مندوں کے درمیان فیصلے
جنگ کے میدان میں ہوا کرتے تھے ۔ خون کی ندیاں بہہ جایا کرتی تھیں ۔ اور جیتنے
والا اقتدار کا حقدار ٹہرتا تھا ۔ پھر زمانے نے کروٹ لی انسان نے فیصلہ کیا کہ اب
ان جنگوں سے سے گریز کرنا چاہیے اور اقتدار کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہونا
چاہیے ۔ وہ جسے بہتر جانیں اسے اپنا بادشاہ چن لیں ۔ جس کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے ہوا
کرے ۔ اب بھی وہی دو فریق تھے ۔ ایک عوام دوم اقتدار کے خواہش مند ۔ لیکن اب میدان
کارزار تلواروں کے سائے میں نہیں بلکہ
پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے اور اپنے نشان پر مہر لگوانے کے لیے عوام کی ذہن
سازی یا رائے سازی کے لیے سجنے لگے ۔ پہلے تو بس طاقت اور جنگی حکمت نے فیصلہ کرنا
ہوتا تھا ۔ اب معاملہ مختلف ہوگیا ۔ اب ایک ہی تخت کے کئی امیدوار ہیں اور ان سب کی
خواہش کہ عوام انہیں اقتدار سونپ دیں اور اپنا بادشاہ مان لیں ۔ عوام سے حق اقتدار
حاصل کرنے کے دو اسباب ہوسکتے ہیں ۔ ایک اپنے آپ کو عوام کا درست انتخاب ثابت کیا
جائے ۔ اور اپنی خصوصیات بتائی جائیں اور عملا بھی دکھائی جائیں ۔ دوم ، مخالف کو غلط اور بد ثابت کیا جائے ۔
ہم دیکھ سکتے ہیں ہماری جماعتیں عموما دوسرا رستہ اختیار کرتی
ہیں ۔ کیونکہ یہ آسان بھی ہے اور پر اثر بھی ۔ کیونکہ اس تالاب کی ساری مچھلیاں ہی
گندی ہیں ۔ اور گندی مچھلی دوسری مچھلی کو گندا ثابت کرتی ہے ۔
یہ ہماری سیاست ہے اور یہ ہم عوام
ہیں ۔ اور یہ اقتدار کا کھیل ہے ،۔
No comments:
Post a Comment