ہیولا
شہیر شجاع
سخت دھوپ کی تمازت سے اس کا بدن بھیگ چکا تھا ۔ وسیع النظر پھیلا صحرا جہاں دور دور تک سائے کی امید بھی نہیں تھی اورریت کی تپش سے اس کے پاوں شل ہورہے تھے ۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا لیکن اس کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیاگئیں اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی آنکھوں کے سامنے چھجا بنائے اٹھ گیا ۔ کچھ دیر تو اندھیرا سا چھایا رہا ۔ اس کینظروں کے سامنے کھلا آسمان تھا جو نیلگوں سمندر جیسا محسوس ہوتا تھا جہاں دور نظر دوڑائی جائے تو بھاپ اڑتی محسوس ہوتیہے ۔ سورج کی شعاعیں اس کا بدن جھلسا رہی تھیں وہ زیادہ دیر آسمان کی جانب نگاہ نہ رکھ سکا ۔
اس کے ذہن میں ایک گونج لہرائی “ غور کرو “ ۔
وہ کچھ دیر کے لیے ساکت ہوگیا ۔ مگر فورا ہی عیاری کے ساتھ اس کو جھٹک دیا ۔ اس نے سوچا میرا یہ سفر اور کس لیے ہے ؟
اس کا سفر مگر بنا کسی تدبیر کے تھا ۔ اس کو زعم تھا کہ شعور کے گوشے متحرک ہیں ۔ وہ دیکھ رہے ہیں ، تجزیہ کر رہے ہیں ، فکرمند ہیں ، اور نتیجہ خیزی تو وہ حاصل کر ہی لے گا ۔
وہ کچھ دور اور چلا ایسے میں اسے اپنے بائیں جانب مگر بہت دور ایک ہیولا سا نظر آیا ۔
اس کو تجسس ہوا کہ یہ کیا ہے ؟ کہیں میرے جیسا مسافر ہی تو نہیں ؟
اس نے اس ہیولے کی جانب اپنا رخ موڑ لیا ۔ وہ جتنا آگے جاتا ، ہیولا اس سے مزید دور ہوتا جاتا ۔ کافی طویل سفر پھر بھی اس نے کرلیا مگر اب آرام کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ہیولا اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے ۔ اتنی مشقت کے بعد اسکے سفر میں کسی انجان منزل کے تعاقب میں کوئی حقیقت نمائی میسر آئی تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میںتھکن سے چور وہ نڈھال جسد نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو صحرا میں چاندنی بکھری ہوئی تھی اورآسمان میں پورا چاند اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
اس نے یک ٹک چاند پر نظریں جمائی رکھیں ۔ جو کچھ اس کے ذہن کے نگار خانے میں چاند سے متعلق مواد تھا انہیں دہرانے لگا ۔ مگراسے اس مخصوص وقت میں چاند بالکل بھی دلکش نہ لگا ۔ اس نے اپنے بستے سے دفتر نکالا اور قلم ہاتھ میں لیکر چند دکھ بھرےاشعار منضبط کردیے ۔ وہ انہیں بار بار پڑھتا ، نوک پلک سنوارتا ۔ اس کا دل خوشی سے معمور ہوجاتا ۔
اس نے حقارت سے چاند کی جانب دیکھا اور وہی اشعار جو اس نے ابھی نذر دفتر کیے تھے انہیں لے میں دہراتارہا ۔
اچانک اسے اس ہیولے کا خیال آیا ۔ اس نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی مگر چاندنی سے پرے گھپ اندھیرے کے وہ کچھ نہ دیکھ سکا ۔
مگر وہ مطمئن تھا کہ اس کا سفر ضرور رنگ لائے گا ۔ وہ اپنی “ انجان منزل “ کو ضرور پالے گا ۔ اس نے اپنے سفری بستے سےچائے بنانے کا سامان نکالا ۔ چائے بنائی اور چسکیاں لینے لگا ۔ اس دوران وہ کافی ہشاش بشاش ہوچکا تھا ۔ کبھی کبھی دور کسیکتے کے بھونکنے کی آواز سے وہ چونک جاتا اور اسے ہیولے کا خیال آجاتا ۔ اسے محسوس ہوتا شاید وہی اس کی طلب تھی جو ابنظروں سے اوجھل پوچکی ہے۔
اس نے اپنا سامان باندھا اور پھر ایک نئی امنگ کے ساتھ اس “ ہیولے “ کے راستے کا تعین کر کے اس جانب چل پڑا ۔
No comments:
Post a Comment