Thursday, April 29, 2021

تہذیبی طعنہ زنی

تہذیبی طعنہ زنی 

شہیر شجاع


ہمیں اکثر طعنہ دیا جاتا ہے کہ "مغل، لودھی و سوری غزنوی باہر سے آئے تھے اور اپنی تہذیب لیکر آئے تھے اس پہ اسلامی تہذیب کا لیبل لگا کر فخر نہ کرنا چاہیے ۔ بلکہ ہماری تہذیب ہندوستانی ہے ۔"میرا کم فہمی پر مبنی شعور اس طعنے کو ہضم نہیں کر پاتا کیوں کہ تہذیب  اور ثقافت میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے ۔ ثقافتیں زمین سے جڑی ہوتی ہیں ۔ جیسے بلوچ ژقافت ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، پختون  اسی طرح دیگر ثقافتیں ۔ مگر تہذیب کو زمین سے جوڑ کر دیکھنا ایک خلا پیدا کرتا ہے ۔

کیا عورت کو ستی کرنا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا بیوہ کو سفید کپڑے پہنا کر ایک کونے میں ڈال دینا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا گائے کو ماتا ماننا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا بڑوں کے پیر چھونا ہماری تہذیب ہے ؟  نہیں ہماری تہذیب کی خاصیت ہی یہی ہے کہ یہ پوری امت پر محیط ہے ۔ یہ آسمانی تہذیب ہے ۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کے آداب سکھاتی ہے ۔ یہ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ فراہم کرتی ہے ۔ یہ کھانے پینے سے لیکر زندگی کے ہر لمحے میں راہنمائی کرتی ہے ۔ پھر تہذیب کسی بھی زمینی خطے سے منسلک نہیں رہ جاتی ۔ بلکہ یہ تو اس اسلامی تہذیبی اقدار کی خصوصیت ہے کہ اس کو کسی کی بھی زمینی عصبیت حاصل نہیں ۔ عرب ہوں ترک و افغان ہوں یا کسی بھی خطے کا باشندہ تہذیبی عصبیت کا دعوی نہیں کرسکتا ۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جو تمام عالم اسلام کو ایک لڑی میں پروتی ہے ۔

زمینی تہذیب کی باتیں عموما زبان کو لیکر کہی جاتی ہیں ۔ کہ ہندو پاک کا مسلمان اردو میں سنسکرت یا ہندی کی نسبت عربی و فارسی کو فوقیت و اہمیت دیتا ہے ۔ اور طعن طرازی کے اسباب میں ایران و عرب سے  تنافر ہوسکتے ہیں واللہ اعلم ۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک بڑی فاش غلط فہمی محسوس ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہر تہذیب کی ایک علمی زبان ہوتی ہے ۔ اور مسلمانوں کی علمی زبان "عربی " ہے ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے یہود کی نسبت عبرانی سے اور ہنود کی سنسکرت سے  وغیرہ وغیرہ ۔ ہم کسی انگریز مسلمان  کو بھی اگر بات کرتے سنیں گے تو ہم اس خصوصیت کو ب؟خوبی محسوس کر سکتے ہیں جب وہ عربی الفاظ کا استعمال جا بجا کرتا نظر آتا ہے ۔ اس کا سبب عربوں کا کوئی کارنامہ ہے نہ ہی ان سے نسبت یہ فقط علمی نسبت ہے ۔ اور ہندوستان میں چونکہ فارسی زبان بھی علم و ادب کی سرکاری سرپرستی کی حامل رہی ہے تو اس زبان  نے بھی علمی ماخذ کا کوئی درجہ حاصل کرلیا جو خصوصا ادب سے متعلق ہے ۔ ہم اگر بحیثیت ہندوستانی جائزہ لیں تو ہماری مذہبی علمی  ماخذ عربی ہے اور اور ادب  کے لیے فارسی کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمارا  تقریبا سارا ادب فارسی سے متاثر ہے ۔ ہم فارس کے ادیبوں کو تو جانتے ہیں مگر عرب ادباء سے شاذ ہی واقفیت رکھتے ہیں ۔ سو ایسی شفاف صورتحال میں ہندوستانی تہذیب کہہ کر اپنے آپ سے یا اپنی زبان سے کراہت محسوس کرنا درست رویہ نہیں ہے ۔ عصبیتی طور پر ہم سب مسلمان ہیں اگر فکر کی بنیاد اسی اینٹ پر ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ تہذیبی زبان کی بنیاد کسی قوم کی  جاگیر نہیں ہے ۔ اور ہندوستانی ہونے کی بنیاد پر عربی زبان سے تنافر کا کوئی سبب باقی نہیں رہ جاتا بلکہ ان دونوں زبانوں کو رواج دینے کی سعی کی صورت نکلتی ہے ۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...