Tuesday, January 18, 2022

سراب زندگی


سراب زندگی

شہیر شجاع

ایک ہندی لڑکا ہمارےقرب و جوار میں رہتا تھا ۔ کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔ اس کی شخصیت  میں متانت اور ٹہراو تھا ۔ ایک  شام مسجد کی پارکنگ ایریا میں اس کی گاڑی کھڑی تھی اور پولیس والے کھڑے تھے ۔ جاکر دیکھا تو پتہ چلا اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا کاٹا ہوا تھا ۔ خود کشی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ کیس انوکھا تھا کہ اپنی ہی گردن پر چھری پھیر دینا ؟ بہرحال کچھ باتیں نکلیں تو پتہ چلا نومولود بچی کا باپ تھا اور نہ جانے گھریلو حالات کیا تھے کہ وہ اپنے گھر والوں سے کہا کرتا  کہ میں جلد ایک سرپرائز دوں گا ۔ اور وہ سرپرائز یہ تھا ۔ گھر والوں پہ جو بیتی سو بیتی ۔ اس نے جو اپنے ساتھ اتنا برا کیا اس کا کیا ؟

میں جب اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھتا ہوں تو سب ہی ایک تخیلاتی زندگی جیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ حقیقت پسندی و عملیت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ماضی کا تصور ناسٹیلجک ، حال ناخوش و شکوہ کناں اور مستقبل تخیلات سے بھرپور ۔زندگی کا محور"ذات" ۔خوشی غمی ، تعلقات ، رشتے ناطے ، نوکری ، تجارت ، سفر و حضر سب اس کی ذات کے گرد گھوم رہے ہوں ۔ اور پیش آمدہ اوامر کے من مانے نتائج وہ انسان اپنے ذہنوں میں اخذ کیے ہوئے ۔ جس سبب سے وہ ساری دنیا سے ناراض  پھرتا ہے ۔ یہاں تک کہ خدا سے شکوہ کرتے بھی نہیں ہچکچاتا ۔ ایسے میں  تعمیر و تخلیقی فکر کیونکر استوار ہوسکتی ہے ؟ زندگی کی گاڑی اونچائی کی جانب کیا سیدھی بھی نہیں بلکہ ڈھلوان کی جانب گرتی چلی جاتی ہے ۔ اب اس شخص کی خؤدکشی کیا تھی ؟ ایک تخیلاتی زندگی کا حاصل ۔ "روح کا جسم سے جدا ہوکر ہی حقیقت کا سامنا کرنا ہو" تو پھر ایسی زندگی اپنے لیے تو مفید ہو نہیں سکتی بلکہ دوسروں کے لیے بھی غیر مفید ہی ثابت ہوگی ۔ اور اسی بنیاد پر ہمارا معاشرہ پنپتا جا رہا ہے ۔

سنا تھا کہ کراچی کتب میلے میں ریکارڈ کتابیں بکیں ۔ کئی کروڑ روپے کی تجارت ہوئی ۔ نہ جانے وہ کتابیں پڑھی بھی گئیں ۔ یا فیس بک میں تصویری پوسٹوں اور بیٹھک کی الماریوں میں سجانے کے کام آئیں ۔ 

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...