Sunday, March 15, 2015

مٹی کا ڈھیلا




مٹی کا ڈھیلا 

شہیر شجاع

سخت چلچلاتی دھوپ میں   سر سے پیر تک پسینے میں شرابور ایک پھٹی پرانی نیکر میں ملبوس ۔۔۔  دھول میں  اٹا ۔۔۔ وہ بچہ ہاتھ میں ایک مٹی کا ڈھیلا لیے  گھٹنوں کے بل چلتا کبھی پیروں پر کھڑا ہوجاتا  چند ہی قدم چل پاتا کہ  پھر سے زمین بوس ہوجانے پر مجبور ہو جاتا ۔ اپنی مآں کو آواز دیتا جو اس کا لاغر جسم تاب نہ لا سکتا اور اس کی آواز گلے میں ہی گھٹ جاتی ۔  مٹی کا ڈھیلا  کبھی کترتا کبھی چاٹتا اپنی بھوک پیاس مٹانے کی جدو جہد کرتا  لوگوں کے بیچ چلا جا رہا تھا ۔ آتے جاتے کسی کے پیروں سے لپٹ جاتا اور کھڑے ہونے کی کوشش کرتا تو اسے جھٹک دیا جاتا ۔ لہرا کر گر پڑتا ۔۔۔۔۔
 اس کی آنکھیں پانی سے بری تھیں ۔ اس کا گلا پانی کا  متلاشی تھا ۔
 کسی پی رپر لپٹنے پر جو  لات پڑی تو وہ  کسی پانی کے جوہڑ پر جا گرا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی اس میں لیٹ گیا اور چہرہ پانی میں ڈبوئے  اپنی پیاس بجھانے لگا  اس کی سانس رکنے لگتی تو وہ چہرہ باہر نکالتا  اور قلقاریاں مارتا ہوااپنے منہ سے پانی جھاڑتا ۔
چھی  ، گندا بچہ ۔۔۔ دو بچے پاس ہی  غبارے لیے  آپس میں کھیل رہے تھے ۔ اسے دیکھ ایک کے منہ سے نکلا ۔
 جوہڑ میں کھیلتے بچے کی ان پر نظر پڑی تو ان کو غبارے سے کھیلتے دیکھ کر وہ بھی تالیاں بجاتے ہنسنے لگا خوش ہونے لگا ۔  جو ان بچوں کو نا گوار گزرا اور وہ دوسری طرف چلے گئے ۔ وہ بچہ یک ٹک منہ کھولے دونوں ہاتھ جیسے تالی بجاتے رک گئے ہوں ، ان دونوں کو غباروں سمیت جاتا دیکھتا رہا ۔   پھر کچھ دیر یونہی اس جوہڑ کے پانی میں بیٹھا  ادھر ادھر پانی میں ہاتھ مارتا چھینٹے اڑاتا کھیلتا رہا ۔ آس پاس چھوٹے بڑے ، بوڑھے سب  اپنی اپنی مصروفیات میں مگن آ جا رہاے تھے ۔  فہیم  خان صاحب کی گود میں بیٹھا بچہ منہ میں انگلی ڈالے یک ٹک اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کو دیکھ رہا تھا ۔۔  کہ خان صاحب نے  اس کے ہاتھ میں ایک چاکلیٹ تھما دی۔۔ لیکن وہ ا سچاکلیٹ کو اپنے ننھے منے ہاتھون سے  ناکام کوشش کرتے ہوئے اسی طرف دیکھتا رہا ۔ کہ اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کی اس سے نظریں ملیں ۔ کچھ پل ایک دوسرے کو دیکھا اور دنوؤں ہنس پڑے  ۔ اتنے میں خان صاحب گلی کے دائیں جانب مڑ چکے تھے ۔
بچہ جوہڑ سے اٹھا   اسی جانب  چلنے لگا   کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں دیکھتا ۔ رنگ برنگی چیزیں دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتا ، قلقاریاں مارتا  ، چلتے پھرتے لوگوں کی لات کھاتا    گلی کے دائیں جانب مڑا  ۔ جو شامیانہ لگا ہونے کی بنا پر بند تھی ۔  اس نے شامیانے کا خوب جائزہ لیا  ننھنے منے ہاتھوں سے اسے ہٹا کر راستہ بنانے کی ناکام کوشش کی ، آخر کار  ایک کونے سے شامیانے کے نیچے لیٹ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔ اندر  الگ ہی شور برپا تھا  موسیقی کی اونچی آواز میں لوگ ناچ رہے تھے  شور کر رہے تھے  ۔ بچہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ، اور قلقاریاں مارنے لگا ۔ اپنے ننھنے پیروں سے آگے بڑھتا کسی کے پیروں کے   درمیاں  آجاتا جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ کر ۔
ہوہ ۔۔ کون ہے یہ  ۔۔ ڈرٹی کڈ ۔۔ گو ٹو ہیل ۔
اور پرے دھکیل دیا جاتا ۔۔۔ دھکے کھاتے کھاتے وہ بالکل دیوار سے لگ گیا تھا ۔۔ منہ پہ انگلیاں ڈالے اپنی دانست میں عجیب نظروں سے ماحول کا جائزہ لیتا ۔۔۔
 کہ  ایک سمت سے کھانے کی خوشبو نے  بھڑکا دیا ۔
 اور اس سمت کو چلنے لگا  آہستہ آہستہ چلتا گیا ۔اس کے چہرے کے اتار چڑھاو دیدنی تھے ۔۔   اب پھر اس کے سامنے شامیانہ تھا لیکن اسے پچھلی مرتبہ کی جدو جہد یاد تھی اس نے اسے آزمایا تو واقعتا  وہ شامیانے کے نیچے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔
سامنے بڑی بڑی دیگیں لوہے کے تکون نما چولہوں میں پک رہی تھیں جن کو کوئلوں سے آگ دی گئی تھی ۔۔  بچے نے دیگوں کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔ ساتھ اپنی  بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ سے بھینچتا جاتا ۔۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو ۔۔۔ کچھ آگے بڑھا ۔۔ دیگ کے قریب ہونا چاہا ۔۔۔ کوئلوں کی گرمی نے اسے  روکا تو وہ  ہلکی چیخیں مارتا  ہوا ۔۔ پیچھے کو سرک گیا ۔۔ اس دیگ کو چھوڑ آگے کی طرف چلتا گیا ۔۔ باورچی لوگ ایک چارپائی پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے  ۔۔  لیکن کسی کی نگاہ اس بچے کی جانب نہ پڑ سکی ۔۔ دیگیں بھی بچے کے قد سے اونچی تھیں ۔۔
ایک دیگ کے نے اسے  اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔ وہ رک گیا ۔۔ اور دور سے ہی ہاتھ بڑھا کر دیگ کو ٹٹولنے یا چھونے کی کوشش کی ۔۔۔ گرمی کو برداشت کرتا وہ بضد ہوگیا کہ اسے چھو کر ہی دم لینا ہے ۔۔۔ اسی دوران تھوڑا سا وہ آگے کو سرک گیا تھا اور ایک کوئلہ اس کے پیروں تلے آگیا ۔۔ گرمی کی تاب نہ لاکر ۔۔ وہ لڑکھڑایا ۔۔ اور اس کا سر دیگ سے ٹکرایا جس ٹکر نے اسکے معصوم جسم کو ہوش و خرد سے ماوراء کر دیا ور وہ کوئلوں کے اوپر یوں بیٹھا کہ دیگ پر سر اور پیٹھ ٹکی تھی جبکہ اس کے کولہے  کوئلوں پر سینک رہے تھے ۔۔۔ ذرا ذرا سا وہ بچہ  ہلتا جیسے آگ اس کے اندر کو جھلسا رہی ہو ۔۔ پر اس میں سانس لینے کی سکت نہ ہو ۔۔ ساکت پڑا جھلستا رہا ۔ تپتا رہا ۔۔ جلتا رہا ۔۔
کچھ ہی فاصلے پر ۔۔۔ وہی ناچ گانے ہو رہے تھے ۔۔ تاش کی پتیاں چل رہی تھیں ۔۔ دیگوں میں کھانے تیار ہو رہے تھے ۔۔۔ اور وہ جھلس رہا تھا ۔۔

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...