پاکستان کے دانشور
محمد شہیر شجاع
کم و بیش ستر سال سے ۔۔۔ اس سرزمین کو ۔۔
ادھیڑنے ۔ کھرونچنے ، اس کی افادیت
کو تباہ کرنے میں سر فہرست ۔ دو
کردار رہے ہیں ۔۔ ایک مذہبی ، دوسرے سیاسی
۔
اور معاشرے کے یہ ہر وہ دو عنصر ہیں جو کسی بھی معاشرے
کی اساس ہوتے ہیں ۔ اسلام تو آیاتھا ۔ دین
و دنیا کو ایک کرنے ۔ جس کی
مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے ۔ جن کی حیات مبارکہ کا ایک ایک گوشہ ہمارے لیے راہ
نجات ہے ۔ پر طے یہ پایا گیا ہے کہ ۔ وہ انسان کا نجی معاملہ ہے ۔ معاشرے کی تخلیق
میں انفرادی کردار ۔ چہ معنی دارد ؟ فرد سے تو کچھ بھی نہیں ۔ جب تک جماعت نہ ہو ۔
اور اس کا یک امیر نہ ہو ۔ اور اس جماعت کے پاس ایک نظام نہ ہو ۔ وہ جماعت
کیسے آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکتی
ہے ۔
جب دین و دنیا کو الگ کردیا گیا ۔ اور اس بات کو تسلیم کر لیا
گیا ۔ علی الاعلان دین و دنیا کے ایک ہونے
کے نظریے رکھنے والوں کو ۔ اللہ
اللہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔ جماعت نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ۔ ایک جماعت نے
دین و دنیا کی فلاح کی ذمہ داری سنبھال لی
۔
دوسری جماعت نے دنیا میں فلاح
لانے کے لیے اپنے آپ کو سیاست کا پہلوان کہا اور دین کو جدا کردیا ۔
اب جب دونوں جماعتوں کا سرسری جائزہ لیا جاتا ہے تو نظر آتا ہے ۔۔
دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرارہی ہیں ۔ کہ معاشرے کی تباہی
میں کس کا کردار زیادہ اہم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اربوں کھربوں کی کرپشن ۔ لوٹ مار اہل سیاست کریں ، غنڈہ
گردی وہ کریں ، عدل کے
ہاتھ پیر وہ توڑیں ، معاشرے میں انصاف کو
امیروں کی لونڈی بنادیں ۔۔۔۔
اور پھر تمنا کریں کہ ۔۔ وہ
سرزمین ۔ پر امن ، شادباد ہو ؟ ۔۔۔۔۔
اور الزام دھردیں اس جماعت پر جس نے گرتے پڑتے
دین کو سنبھالا دیا ہوا ہے ۔ بیشک
ان میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہیں ، ان میں
بھی ارتقائی تبدیلیاں ناگزیر ہیں ۔ بیشک
اس جماعت میں بھی ہر قسم کے لوگ
موجود ہونگے ۔ مگر ہم نے کسی بھی سطح پر کسی بھی محمکے ، طبقے یا
صنف پر کبھی کوئی توجہ دی ہے جو اس جماعت
کو جب جی میں آئے الزام دھر دیتے ہیں ۔ دہشت گرد ، دہشت گرد ہوتا ہے ۔ خواہ وہ
مذہبی و نظری ۔۔۔ اور ان کے بنانے
واے ، یہ اہل سیاست اور وہ دانشور ہیں ۔ جو دین کو دنیا سے جدا سمجھتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment