امید
و یاس
شہیر شجاع
وہ
کوئی پچپن ساٹھ کے درمیان ہونگے ۔ درزی تھے
اور اپنی مشین پر بیٹھے تھے ۔ چہرے کی ہلکی سی جھریاں شدید محسوس ہورہی تھیں ۔ آنکھوں
میں امید و اداسی کی کشمکش عیاں تھی ۔ پردیس کی طویل غریبی ان کی پیشانی سے جھلک رہی
تھی ۔
کیا
بات ہے حفیظ بھائی آج کچھ زیادہ پریشان لگ رہے ہیں ؟
نہیں
کچھ نہیں ۔ انہوں نے جواب دیا
ارے
کچھ تو ہے ؟ ۔ پاکستان میں سب خیر تو ہے ناں ؟ کفیل کی پرابلم ؟ کیا مسئلہ ہے بتائیں
تو ؟
نہیں
یار ۔ سب خیر ہے بس کچھ سوچ رہا تھا ۔ وہ اٹھ کر میری جانب آگئے ۔ مصافحہ ہوا ۔ اب
بھی چہرہ سپاٹ تھا ۔
ایک
جانب چہرہ کیے اب بھی سوچوں کی دنیا سے باہر نہ نکل پائے تھے ۔
میرا
تجسس بڑھتا جا رہا تھا ۔ نہ جانے کس مسئلے میں الجھے ہیں ؟
یکدم
گویا ہوئے ۔
وہ
بولتے جا رہے تھے ۔ اور میں بس سنتا جا رہا
تھا ۔ ان کا چہرہ سرخ ہو تا جا رہا تھا ۔ آنکھوں میں امید کا جلتا دیا بخوبی محسوس
کر سکتا تھا ۔
یار
شہیر یہ سی پیک کامیاب ہوگیا ناں پھر دیکھنا ۔ ان شاء اللہ پاکستان کو پھر کوئی پکڑ
نہیں پائے گا ۔ پاکستان پھر یوں اوپر کی جانب جائے گا ۔ پاکستان ترقی کی منزلیں آنا فانا طے کرے گا ۔ پھر
ان کی زبان رکی نہیں ۔ دل کے پھپھولے ہمارے اطراف فضا میں ستاروں کی مانندچمچمانے لگے ۔
No comments:
Post a Comment