بلی
کے گلے میں گھنٹی کس نے باندھی
شہیر
شجاع
ایک
گھر کے مکیں چند بلیوں سے شدید پریشان تھے ۔ ان کے کچن میں رکھا دودھ ہمیشہ کوئی
نہ کوئی بلی پی جاتی یا کچھ نہ کچھ خراب کردیتی ۔ آخر انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا
کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس مصیبت سے چھٹکارا ہوجائے ۔ ان میں سے ایک
نے ہمت کی ، بازار سے ایک گھنٹی خریدی اسے دھاگے میں پرویا
اور بلی کی تاک میں بیٹھ گیا ۔ جونہی اسے موقع ملا اس نے بلی پر نشانہ تاکا اور وہ
گھنٹی بلی کے گلے کے گرد اٹک گئی ۔ اب جب بھی بلی
گھر کے اندر داخل ہوتی اس کے گلے
کی گھنٹی سب کو ہوشیار کردیتی ۔ اس وقت اسٹیٹس کو کےساتھ بھی یہی معاملہ درپیش
ہے ۔ ان کے گلے میں گھنٹی بندھ چکی ہے ۔ اور اس گھنٹی کا شور لاوڈ اسپیکر میں
تحریک انصاف پوری قوم کو سنائے جا رہی ہے ۔ جس سے یہ خاندانی اجارہ دار طبقہ سخت
پریشان ہے ۔ کبھی مخالف جماعت کو سازشی
عنصر کہہ کر چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی یہودی ایجنٹ جیسے فرسودہ
القابات سے نوازتا ہے ۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ قرار دیتا ہے ۔ غرض گھنٹی ہے
کہ اس کا پھندا سخت تر ہی ہوتا جا رہا ہے
۔
تحریک
انصاف نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ان کی اپنی
سیاست کو خواہ کتنے ہی زخم لگتے رہیں ۔ وہ اس غیر جمہوری نظام کو ختم کر
کے ہی رہیں گے ۔ سو ایک مضبوط عالمی استعماری نظام ہے جس کی جڑیں نہایت مضبوط
ہوچکی ہیں ۔ اس کے خلاف مہم جوئی اتنی آسان
تو ہو نہیں سکتی تھی ۔ لہذا ہر قسم
کے الزامات برداشت کرتے ہوئے یہ آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔
آج
ملک میں کرپشن مخالفت کی جو لہر چلی ہے یہ
لہر جب تک قائم ہے کرپٹ سیاستدانوں کے لیے
کرپشن کے لیے ہر گز آسانی نہیں رہی جیسے کہ
ماضی میں چلتا رہا ہے ۔
ن
لیگ یہ تاثر دینے میں تو کامیاب ہے کہ وہ اداروں پر اعتماد کرتی ہے جبکہ تحریک انصاف
کا موقف یہ ہے کہ ادارے ناکام ہیں وہ سیاسی ہوچکے ہیں ۔ وہ آزاد نہیں ہیں ۔ اس بات
سے قطعی انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ن لیگ اگر اداروں پر اعتماد کر رہی ہے تو اس
کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ادارے آزاد نہیں ہیں ۔ گزشتہ تیس سالوں سے ایک طویل عرصہ اقتدار بھی ان کے ہاتھوں میں رہا
ہے سو اچھا خاصہ عمل دخل بھی ان کا موجود ہے ۔ اگر وہ واقعتا اس معاملے میں مخلص
ہوتے تو اب تک جوڈیشل کمیشن قائم ہو کر اپنا کام شروع کر چکا ہوتا ۔ مزید یہ کہ
نواز شریف کو اقتدار سے زیادہ اپنی عزت اور ملک
کا وقار عزیز ہوتا تو وہ استعفی دیکر ان مقدمات کا سامنا کرتے اور یقینا وہ " پاک صآف " ہیں ۔ اور کلین چٹ لیکر واپس جب اقتدار کی کرسی پر
براجمان ہوتے تو تیس فیصد کی جگہ اسی فیصد
کی نمائندگی سے کسی بھی طرح محروم نہ رہتے ۔
یہ لیڈر کی پہچان ہوتی ہے بڑا لیڈر ایسے فیصلے کرتا ہے ۔ کرپشن کی تعریف میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی،
مکاری، خود غرضی، بد دیانتی و دیگر برائیاں شامل ہوجاتی ہیں، تو کیا ایسے شخص کو
اپنا دامن صاف کیے بنا اس عہدے پر قائم رہنا چاہیے؟
اس
نکتے پر پہنچنے کے بعد ن لیگ کا اداروں پر اعتماد کی قلعی بھی کھل جاتی ہے ۔ کہ چور کو اپنے ساتھی پر بھی اعتماد نہیں ہوتا ۔
تحریک انصاف کا طریقہ کار غلط ہوسکتا ہے ۔ بلکہ دیکھا
جائے تو ان کے اکثر سیاسی فیصلے ان کے خلاف ہی جاتے ہیں ۔ انتہا تک جانے کی ضد
نے ایک اچھی تعداد کو تحریک انصاف سے دور بھی کر دیا ہے ۔ حالیہ لاک ڈاون کا
فیصلہ بھی غلط تھا ۔ تو کیا اپنے ہی پیروں میں کلہاڑیاں مارنے والی پارٹی کو سازشی
پارٹی مان لیا جائے ؟ جو آزاد نہیں بلکہ کٹھ پتلی جماعت ہے ؟ ایسی سوچ رکھنا سراسر
اس جماعت کے ساتھ ہی نہیں اپنے ساتھ بھی ناانصافی ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جیسے مولانا کا عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا
اور عمران خان کا نواز شریف کو سیکورٹی رسک کہنا غلط ہے ۔
ہم
نے گزشتہ ادوارمیں ادارے بنتے نہیں دیکھے تو
ہم تحریک انصاف کے موقف کو تسلیم کرنے کی جانب
مائل ہیں ۔ نہ ہی گورننس کی سطح پر وفاق کی جانب سے داخلی امور میں کوئی خاص پیشرفت
نظر آئی ہے ۔ سوائے لاہور کے آرکیٹیکچرل گورننس
کے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وفاق نے پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا
۔ بیشک ضرب عضب حکومت کا بہترین کارنامہ ہے جو ان شاء اللہ اپنے انجام پر خوش آئند
تبدیلیاں لیکر آئے گا ۔سی پیک کا ذکر یوں نہیں کیا جا سکتا کہ یہ قوم کا اثاثہ ہے ن لیگ کی کامیابی اگر ہوتی تو وہ یہ کہ ، اس پر قائم اعتراضات دور
کر کے اتفاق رائے قائم کردیتی ۔ بہر حال اس کرپشن مخالف تحریک کے ضمنی پہلووں پر نظر ڈالی جائے اور اپنا محاسبہ
کیا جائے تو مستقبل میں ہم خاندانی اجارہ داری سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ اور بہترین
اذہان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع
مل سکتا ہے ۔ ورنہ کل بلاول زرداری ، مریم نواز ، حمزہ شہباز اور اس کے بعد ان کی آل اولادوں نے ہی ہم پر حکمرانی کرنی ہے جن کی ماتحتی پر ان اعلی
تعلیم یافتہ ، تجربہ کار افراد نے اپنے آپ کو مجبور کر رکھا ہے ۔ کیونکہ ہم شاید یہی
چاہتے ہیں ،اور ان کے خلاف جو بھی اٹھے گا اسے ہم
بادشاہ سلامت کے خاندانوں کے خلاف سازشی عناصر کہہ کر دھتکار دیا کریں گے ۔
احسن اقبال صاحب نے گلاس آدھا بھرا اور آدھا خالی کی مثال بہت عمدہ دی تھی ۔ بالکل
ویسی ہی مثال اس گھنٹی پر بھی صادق آتی ہے ۔ گھنٹی بندھوائی گئی ہے یہ گھنٹی باندھی گئی ہے ۔ ہمارا قومی شعور ہمیشہ بندھوائی گئی کا رہا ہے
۔ ہمیں اب اپنے آپ پر انحصار کرنا ہوگا ۔ اپنے
بنیادی حقوق ہم پس پشت ڈال کر بلی کو کس بات کی چھوٹ دے رہے ہیں ۔؟
No comments:
Post a Comment