Saturday, December 10, 2016

دعوۃ و تبلیغ ، تبلیغی جماعت


دعوۃ و تبلیغ ، تبلیغی جماعت
شہیر شجاع
مدینہ منورہ سے تبوک ایک چلے کی جماعت آئی ہوئی ہے ۔ اب ہم دنیا دار لوگ اپنی دنیا  کے جھمیلوں یا فرصت کے اوقات میں  لطف اندوز ہونے کا سوچتے ہیں ۔۔ جبکہ دوسری جانب بہت سے ایسے افراد جو اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالتے ہیں ۔۔ اور  مسرت کے لمحات کی قربانی دیتے ہیں صرف اس لیے کہ اللہ کے دین کے لیے کچھ وقت دے دیا جائے ۔۔ چند لمحات قیمتی بنا لیے جائیں ۔۔
کچھ عرصہ قبل مجھے ایک کال موصول ہوئی ۔۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتے تھے  ان کا نام عبدالماجد بھائی تھا ۔ کیوں ؟ محض نسبت دین سے ۔ چند لمحے جو بھی ہمارے گزریں اس میں دین کی باتیں ہوں ۔ اور کوئی مقصد نہ تھا ۔ میرے پاس آئے کچھ دیر بیٹھے ، ہمارے درمیان چند باتیں ہوئیں ، اور وہ چلے گئے ۔ اور مجھے سوچنے پر مجبور کر گئے کہ میں بھی مسلمان کہلاتا ہوں ۔۔ اور نہ جانے اپنے ذہن میں کتنے کبر پال رکھے ہیں ۔ کہیں اپنے آپ کو بہتر سمجھتا ہوں کہیں برتر ۔ کسی معاملے میں اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہوں ۔چند معاملات میں اپنے شعور کو دوسرے کی نسبت درست سمجھتا ہوں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ اور ان بتوں نے میری زندگی میں کیا اثرات مرتب کر رکھے ہیں ؟ نہ مجھ میں علم ہے ؟ نہ عمل ہے ؟ بس باتیں ہیں ۔۔ اور باتیں بھی اتنی کہ اچھے خاصے عالم حضرات متاثر ہوجاتے ہیں ۔۔ یکدم مجھے محسوس ہوا ۔ وہ متاثر نہیں بلکہ میری دلجوئی کرتے ہیں ۔۔ شاید کہ کچھ خیر انہوں نے مجھ میں دیکھا ہو ۔ اور وہ خیر بتدریج بڑھے۔ 
مجھے احساس ہوا میں دراصل ایک خمار میں جی رہا ہوں ۔۔ جس میں صرف میں ہی میں ہوں ۔۔ مجھے ساری دنیا کم عقل و بے شعور نظر آتی ہے ۔ یہ ایک ایسا خمار ہے ۔۔ جو مجھ میں منافقت بھردیتی ہے ۔ میں سامنے بہت خلوص سے ملتا ہوں۔ مگر جیسے ہی مجلس بر خاست ہوتی ہے ، مجھے ان لوگوں پر ترس آنے لگتا ہے ۔ جیسے میری عقل سب سے بہتر ہو ۔   اس جیسے مختلف احساسات نے مجھے جھنجھوڑ ڈالا ۔ مجھ میں اپنی انتہائی کم مائیگی کا احساس شدید ہوگیا ۔ ہر دوسرا شخص مجھے بہتر  لگنے لگا ۔  محسوس ہوا کہ حقیقت یہی ہے ۔ میں تو کچھ بھی نہیں ؟ سوائے کلمہ شہادت کے میرے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اور اس کلمے کے معنی و مفہوم بھی درست طریقے سے جانتا ہوں نہ سمجھتا ہوں ۔ اور بڑے بڑے نظریات پر گفتگو ایسے کرتا ہوں جیسے کوئی بہت بڑا عالم ہوں ؟ ۔۔ 
ایسا کیوں ؟
اس سوال کا جواب تو مجھے مل گیا ۔ مجھ میں سیکھنے کی طلب مزید بڑھ گئی ۔۔ علم کی پیاس شدید ہوگئی ۔۔۔ عمل کی جانب بڑھنے کی جستجو پیدا ہوگئی ۔  فی زمانہ دنیا  کی جستجو میں مگن روحانی طلب کو پورا کرنے کا ماحول عام نہیں ہے ۔  مگر یہ شاذ بھی نہیں ہے ۔ ہر محلے میں ایسی مجالس کا اہتمام ہورہا ہے ۔ بس اس ماحول سے مستفید ہونے کی جستجو ہونی چاہیے ۔ اس ماحول کی طلب ہونی چاہیے ۔ بیشک ہر ایک باعمل نہیں ہوتا ۔ پر ماحول کے زیر اثر ضرور ہوتا ہے ۔ اور ماحول بتدریج ہی متاثر کرتا ہے ۔
کم از کم  اتنی سی بات کا ہی ادراک ہوجائے کہ ۔۔
ان الانسان لفی خسر ۔۔۔ بیشک انسان خسارے میں ہے ۔۔۔
 تو ہمارے ذہنوں میں موجود انجانا احساس کبر مٹ جائے ۔ جو شدت سے ہم میں سرایت کر چکا ہے ۔ ہمیں  ہر خیر کی چیز سمیٹ لینے سے روک لیتا ہے ۔ جس کبر نے کمارے ذہنوں میں وسوسے پیدا کر رکھے ہیں ، اور  کبر ہو کر بھی ہمیں محسوس نہیں ہوتا ۔
تو بات ہو رہی تھی  چلے کی جماعت کی ۔ جناب عبدالماجد صاحب بہت محبت کرنے والے انسان ہیں ۔  انہیں اس جماعت کا علم تھا ۔ وہ خود انڈین ہیں ۔ انہیں علم ہوا کہ وہ جماعت پاکستان کی ہے اور اس میں ایک صاحب کا تعلق کراچی سے ہے ، تو وہ مجھے اس جماعت سے ملانا چاہتے تھے ۔ میں نے رضامندی ظاہر کردی ۔ ہم اگلے دن جمعے کو عصر کی نماز کے بعد  جماعت  سے ملنے جا پہنچے ۔ الحمد للہ بہت ہی بہترین وقت گزرا اور وقت کے حقیقتا  قیمتی ہونے کا احساس میں نے دل سے محسوس کیا ۔  جن کا اچھا وقت لگا ہوتا ہے ۔ اور جوواقعتا اپنے آپ کو مکمل طور پر دعوۃ کے کام  کو سونپ  چکے ہوتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں ،  ان کے ملنے کے انداز میں ایک خاص عنصر جو آپ شدت سے محسوس کرتے ہیں وہ ہے ان کے اعلی اخلاق ، نبوی اخلاق ۔ جس میں  اپنی ذات سے مکمل کنارہ کشی ۔ محض اللہ کی ذات ہی بلند و بالا اور ہر مخاطب اپنے آپ سے برتر و بہتر ۔   ورنہ دعوۃ و تبلیغ سے جڑے بیشتر ایسے افراد بھی ملیں گے  جنہیں دیکھ کر مجھ جیسے بد بخت  دل میں برا سوچنے لگتے ہیں ۔ اور  مختلف خیالات و نظریات کے آئینے میں   منفی  نتائج اخذ کر بیٹھتے ہیں ۔ ہوتا کیا ہے ؟ ہم خود ہی اپنے آپ کو خیر سے دور کر لیتے ہیں ۔ 
بہر حال جماعت کے امیر صاحب  مردان کے ایک بزرگ تھے ۔ اللہ جل شانہ ان سے راضی ہوں ۔ نہایت ہی خوش اخلاق، ملنسار ۔ عبدالماجد بھائی ان سے  پہلے ہی مل چکے تھے ۔ سو انہیں علم ہوا تھا کہ امیر صاحب انیس سو اکیانوے میں ڈیڑھ سالہ  بیرون ملک لگا چکے ہیں جس میں وہ بارہ ملک گھومے بنا ہوائی جہاز استعمال کیے ۔ انہیں اس کی ممانعت تھی ۔ اور شدید ضرورت کے تحت ہی کسی بھی قسم کی سواری کی اجازت تھی ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد سے ملاقات ہو سکے یا مزید بھی کوئی حکمت ہو سکتی ہے ۔ فرماتے ہیں ۔ پاکستان سے جماعت نکلی ایران ، پھر ترکی ، شام ، اردن ، مصر ، سوڈان ، تنزانیہ ہوتے ہوتے زمبابوے ان کا آخری پڑاو تھا ۔ اور یہ سارا سفر پیدل ہوا ۔ دس فیصد سفر ٹرکوں وغیرہ میں رہا ہوگا ۔ فرماتے ہیں عجیب و غریب جنگل ، پہاڑ ، صحرا  اور اللہ کی نصرت کے ایسے ایسے واقعات دیکھنے میں آئیں عقل دنگ رہ جاتی تھی ۔اور ایسے ایسے غیر مسلموں سے ملنے کا اتفاق ہوا کہ اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی تھی ۔   کارگزاری تو طویل ہے ایک واقعہ  سنا رہے تھے ۔ فرماتے ہیں ، وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں چہار سو نصاری یا کرسچین آباد تھے ۔ کوئی مسلمان نظر نہ آتا تھا ۔ مگر وہ کرسچین لوگ ان کی نصرت کر رہے تھے ۔ انہیں اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ دے رہے تھے ۔ کھانے پینے کی اشیاء سے خاطر کر رہے تھے ۔ ان کے بچے ان کی تعظیم یوں کر رہے تھے جیسے وہ کوئی نادر مخلوق ہوں ۔ سر جھکا کر ملتے سر جھکا کر ان کی خدمت کرتے ۔ وہ  یہ سب تعجب  سے دیکھ رہے تھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔  تو  فرصت دیکھ کر انہوں نے  ایک صاحب سے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ آپ لوگ تو حضرت عیسی علیہ السلام کا کام کر رہے ہیں ۔ آپ لوگ بہت بڑا کام کر رہے ہیں ۔ آپ لوگ ہمارے لیے بہت خاص ہیں ۔ ہمارے لیے معظم ہیں ۔ وہ بتاتے چلے گئے اور وہ شرم سے ڈوبتے چلے گئے کہ ایک یہ عیسائی ہیں اور دوسرے ہم مسلمان ہیں ۔ ان کے بچوں کی کتابوں میں عیسی علیہ السلام پر مضامین موجود تھیں ۔ یعنی بچپن سے ہی انہیں عیسی علیہ السلام کی زندگی اور ان کے خصائل و سنن سے آگاہ کردیا جاتا ہے ۔  یہ صرف ایک گھر کا نہیں دیہات در دیہات  میں ایسی ہی صورتحال کا مشاہدہ رہا ۔
اس بیٹھک میں  ان کی ایسی ایمان افروز کارگزاری تھی جی کرتا تھا ساری رات وہ سناتے جائیں اور ہم سنتے جائیں ۔  

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...