چلغوزے پر دھمال
شہیر شجاع
ہماری نفسیات میں اتنی خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں جن کا ادراک
کرنا بہر حال آسان ہو کر بھی بہت مشکل ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم چند
لمحے ٹہر کر غور کرنے کا جذبہ نہیں رکھتے ۔
پروپیگنڈوں پر نظریات کی تشکیل کردینے والے اذہان سے کیا توقع رکھی جا سکتی
ہے ؟ اور یہ ہتھیار اب اس قدر کارگر ہو چکا ہے ، اس کے نتائج اتنے مثبت آرہے ہیں
کہ میڈیا
ایک بہترین منافع بخش تجارت کا روپ اختیار کر گیا ہے ۔ کہا جاتا ہے سوشل
میڈیا پھر بھی قدرے بہتر مقام ہے مگر
محسوس کیاگیا ہے کہ یہاں چونکہ ردعمل کے اظہار کا موقع مزاج کے عین مطابق فوری
ملتا ہے سو سب سے بڑا ہتھیار جو نفسیات کی تشکیل
میں کارآمد ثابت ہو رہا ہے وہ سوشل میڈیا ہے ۔ بہرحال مثبت و منفی اثرات کا
موازنہ کیا جا سکتا ہے ۔ الیکٹرانک و سوشل میڈیاز کا موازنہ کیا جائے تو بیشک سوشل
میڈیا کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے ۔
کہیں دور ہوتا تھا صحافت و ادب کا۔ اب تو جیسے صحافت کوئی موئن جودارو تہذیب کا حصہ محسوس ہوتی ہے
اور ادب دل جلوں اور دلبروں کا کھلونا ۔
استفادہ اب صرف اسی کے لیے ممکن ہے جو جستجو رکھتا ہو ۔ ورنہ ہر ذہن اس
سونامی کا شکار ہوتا چلا جائے گا اور ہوتا
چلا جا رہا ہے ۔ کسی بھی مضمون ،
کالم ، افسانہ ، شعر ، نظم ، تقریر ، خطاب و دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے کوئی بھی
بات پہنچائی جائے تو اس میں سے حقیقی مطالب و مخازن اخذکرنے کے بجائے کوئی ایسا
مطلب تلاش کرلینا جس سے کسی نئے طوفان ، کسی نئی تفریح کی ابتداء کی جائے ، ایسا مزاج تشکیل پا چکا ہے ۔ لکھنے ، پڑھنے اور بولنے کا مقصد مدح سرائی قرار پائے تو پھر علم اس سماج کا حصہ
کیونکر ہو سکتا ہے ؟ ایسا ہی ایک واقعہ آج کل " معصوم چلغوزے " کے ساتھ
پیش آیا ۔ یک دم سیلیبریٹی ہوگیا ۔
وہ اتراتا ہوگا یا شرماتا ہوگا ؟ اس کا تو
علم نہیں مگر وہ کم از کم غصے سے تھر تھراتا ضرور ہوگا کہ مارکیٹ میں تو ویسے ہی
عام آدمی کی دسترس میں نہیں ۔ مگر بیمار
اذہان کی تسکین کے لیے اس کا نام ہی دوا ہو گیا ۔ اس کی قیمت اتنی گر
جائے گی اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا ؟
مگر یکدم کسی جانب سے چند آوازیں ایسی آتی ہیں کہ اسے محسوس ہوتا ہے
جیسے وہ تو قارون کے خزانے کا کوئی انمول
ہیرا ہے۔ اور وہ اپنا سینہ چوڑا کرلیتا ہوگا ۔
جس انمول جنس کو حیا کے ادراک کے لیے اس معصوم میوے کو مثال کے لیے استعمال
کیا گیا ، کوئی انہونی بات تو نہ تھی ۔ ورنہ
مرد و عورت کو تہذیب پر لیکچر دیتے ہوئے نہ جانے کیسی کیسی مثالیں زبان زد عام ہیں ۔
مگر چونکہ یہاں معاملہ عورت کا ہے اور یہ
موضوع ویسے ہی پسندیدہ ہے ۔ جب نام عورت ہی لیا جائے یعنی چھپا ہوا ۔ تو انسان کی
تجسسانہ فطرت اسے مجبور کرتی ہے کہ ، چھپی ہوئی چیز کسی طرح نظر آجائے ۔ پتہ تو
چلے کہ کیا چھپا ہوا ہے ؟ اور پھر سی آئی
ڈی کے
مختلف کھیل وجود میں آتے ہیں ۔ جاسوسی فلمیں کسے پسند نہیں ہوتیں اور پھر اس
میں گلیمر کا تڑکا ہوتو سپر ہٹ ۔ سوچتے
ہونگے جاسوسی فلم کا یہاں کیا دخل ؟ ذرا ایک
منٹ ٹہر جایے ۔ غور کیجیے ۔ "
چلغوزہ " کہیں کسی نے اس لفظ کا استعمال کر لیا قصداََ یا اراداتا ََ ۔ اس مثال کی وجہ کیا بنی ؟ کیوں مثال دی گئی ؟
کم از کم سو الفاظ تو ادا کیے گئے ہونگے ۔ پھر ایک لفظ چلغوزہ ہی کیوں نقطہ اعتراض قرار پایا ؟ جبکہ
اس مثال کی وجہ تخلیق حیا کا موضوع تھا ۔
اب سوچیں " حیا " اور " چلغوزے " کا فرق ۔ حیا سے
احتراز اور چلغوزے پر دھمال کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ؟ اور جو
خواتین اس لفظ کو اپنے آپ پر منطبق فرما کر مزید اپنے تمسخر کا باعث ہو رہی ہیں ان
سے گذارش ہے کہ وہ چلغوزہ
یعنی میوہ کھائیں اور چلغوزے پر
دھمال ڈالنے والوں کی عقل کا ماتم کریں یا ان کے حق میں دعا ئے ہدایت ہی کردیں ۔
یہی سب سے بہتر ردعمل ہے ۔