Saturday, August 22, 2020

سرمایہ دارانہ تعلیم اور جدیدیت

سرمایہ دارانہ تعلیم اور جدیدیت


یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "جدیدیت " سرمایہ دار کی جانب سے پیش کردہ ایسا تصور حیات ہے جس میں ملبوس ہوکر انسان "میں " میں مبتلا ہوجائے اور سرمایہ دار کی ترقی کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردے ۔ بیس بچیس سال  کی انتھک محنت کے بعد ایک ڈگری کا حصول اس کو کسی سرمایہ دار کی خدمت کا حقدار بنادے ۔ جس کے عوض اس کی ذات کو چند جبلی آسائشات میسر آجائیں ۔

اسی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کا تصور قائم ہے ۔ اسی ذیل میں آج کے اخلاقی تصورات تشکیل پاتے ہیں ۔ جہاں خدمت کی باقاعدہ ویڈیو بنائی جاتی ہے  ۔ فوٹو سیشن ہوتا ہے ۔ ناموں کی تختیاں سجائی جاتی ہیں ۔

غریب ایک ایسا پروڈکٹ ہے جس سے ڈرایا جاتا ہے ، جسے استعمال کیا جاتا ہے ، جسے گالی سمجھا جاتا ہے ، جسے معاشرے کا کلنک سمجھا جاتا ہے ۔ ہنرمندی "عیب" اور جفاکشی بے حمیتی کا استعارہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب "افسر " عوام میں آتا ہے تو "ہٹو بچو " کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔

کیسے تضادات سے بھرے تصورات ہیں ۔ اور یہ جدیدیت ہے ۔


No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...