سرمایہ دارانہ تعلیم اور جدیدیت
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "جدیدیت " سرمایہ دار کی
جانب سے پیش کردہ ایسا تصور حیات ہے جس میں ملبوس ہوکر انسان "میں " میں
مبتلا ہوجائے اور سرمایہ دار کی ترقی کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردے ۔ بیس بچیس
سال کی انتھک محنت کے بعد ایک ڈگری کا
حصول اس کو کسی سرمایہ دار کی خدمت کا حقدار بنادے ۔ جس کے عوض اس کی ذات کو چند
جبلی آسائشات میسر آجائیں ۔
اسی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کا تصور قائم ہے ۔ اسی ذیل میں
آج کے اخلاقی تصورات تشکیل پاتے ہیں ۔ جہاں خدمت کی باقاعدہ ویڈیو بنائی جاتی ہے ۔ فوٹو سیشن ہوتا ہے ۔ ناموں کی تختیاں سجائی
جاتی ہیں ۔
غریب ایک ایسا پروڈکٹ ہے جس سے ڈرایا جاتا ہے ، جسے استعمال
کیا جاتا ہے ، جسے گالی سمجھا جاتا ہے ، جسے معاشرے کا کلنک سمجھا جاتا ہے ۔ ہنرمندی
"عیب" اور جفاکشی بے حمیتی کا استعارہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب "افسر
" عوام میں آتا ہے تو "ہٹو بچو " کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔
کیسے تضادات سے بھرے تصورات ہیں ۔ اور یہ جدیدیت ہے ۔
No comments:
Post a Comment