ہمارے
اذہان سوچتے ہیں ۔ سوچ کے بھی محرکات ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ذہن خودمختار حیثیت میں
نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا اور اس امر کے ادراک سے انسان عموما خالی ہوتا ہے ۔ اور ذہن
کی تسکین کے حصول میں نامکمل راستوں پہ چل پڑتا ہے ۔ لہذا وہ مزید گنجلک مراحل میں
داخل ہوجاتا ہے ۔
یہاں
انسان دو غلطیاں کرتا ہے ۔ اول وہ منزل کا تعین نہیں کرتا اور بے منزلی کا سفر
سوائے آوارہ گردی کے کیا ہوسکتا ہے ؟ دوم وہ انسانی وجود یعنی اپنے آپ کے فہم سے
بھی ناآشنا ہوتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ راستے کے شعور سے
عاری ہوجاتا ہے ۔ فعلیت کے عناصر غیرفعال رہتے ہیں اور سارا بوجھ ذہن کو سنبھالنا
پڑتا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہوتا ۔
No comments:
Post a Comment