Saturday, February 11, 2023

فوکس

 فوکس

ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔

اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ ہے ۔ مگر ہم نے فوکس بوریا نشینی کو ہی کرنا ہے کارنامے کی اوقات تو ہے نہیں ۔

 

زندگی کا ذائقہ

 

کل نفس ذائقۃ الموت

اللہ جل شانہ نے یہ نہیں کہا کہ “ ہر نفس کو زندگی کا ذائقہ چکھنا پڑے گا “ یہاں جو ہر شخص زندگی سے نالاں و ناشاد ، شکوے و شکایات لیے مضطرب و نوحہ خواں رہتا ہے ۔

اللہ جل شانہ فرماتا ہے “ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا “ ۔ زندگی تو اک دھوکہ ہے اور دھوکہ کبھی انسان کے لیے خوشی کا باعث ہوا ہے بھلا ؟ حقیقت تو بس موت ہے ۔

 

ماں اور خؤاہشات کی نوحہ خوانی

ایک دوست کی والدہ اس کے بچپن میں رحلت فرما گئی تھیں ۔ اللہ جل شانہ مرحومہ کی مغفرت فرمائیں آمین ۔ وہ آج ماشاء اللہ زندگی میں کامیاب ہے ۔ دنیا کی سہولیات سے آراستہ زندگی ہے من فضل اللہ ۔

اکثر کہا کرتا ہے کہ “ کاش والدہ حیات ہوتیں تو میں ان کو زندگی کی ان سہولیات سے خوشی پہنچاتا ۔ وہ بیچاری مفلسی کی زندگی بسر کر کے اتنی جلدی چلی گئیں ۔

ایک دن میں نے کہہ دیا ۔ شاید وہ زندہ ہوتیں تو انہیں زندگی کی آسائشات کی طلب نہ ہوتی ۔ خدا ترس لوگ آسائشات سے نہیں ، اپنوں کی خوشی سے خوش رہتے ہیں ۔ شاید اسے زندگی کی خوشیاں سمیٹتے دیکھ کر زیادہ خوش رہتیں۔ خیر شاید کے علاوہ اگر واقعی ان کو خوشی پہنچانا چاہتے ہو تو اللہ جل شانہ نے توفیق عطا فرمائی ہے جو شاید ان کی حیاتی میں نہ ہوتی ۔ کہ اب ان کے نام پہ کوئی صدقہ جاریہ کا سلسلہ چلا دو ۔ جیسے کسی دو بچوں کو عالم فاضل بنادو جو اپنی زندگی اللہ جل شانہ کا نام بلند کرنے پہ صرف کریں ۔ اور یہی تربیت وہ اپنی اولاد کی کریں ۔ تو یہ ایک بہترین صدقہ جاریہ ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں جو اس زمرے میں آتے ہیں ۔

اکثر بہت سے دوستوں کی باتوں اور اپنے ذہن میں امڈتے خیالات پہ غورو فکر ہوتا ہے تو محسوس ہوتا ہے ہم اپنے نفس کو بہلانے کا سامان زیادہ کرتے ہیں ، خواہشات کی نوحہ خوانی زیادہ اور عملیت سے کوسوں دور رہتے ہیں

 


خواہشات اور خدا

 خواہشات

جب خواہشات کا گلا گھونٹنا جیسے پھٹیچرجملے ہماری زندگی کا حصہ بن جائیں اور ایسے جملے ہماری فکر کو ، ہمارے احساسات کو ، جذبات کو متاثر کرنے لگیں تو پھر خدا کی حیثیت محض خواہشات میں رنگ بھرنے والے کی رہ جاتی ہے ۔ خدا جو خالق کائنات ہے ، جس نے مجھے بنایا ، جو مجھے رزق دیتا ہے ، مجھے بیمار کرتا ہے تو مجھے شفا بخشتا ہے ، مجھے غموں سے آزماتا ہے تو میری زندگی کو اپنی نعمتیں و رحمتیں عطا کرتا ہے جو ان غموں و کمزور لمحوں پہ ہزار گنا بھاری ہوتی ہیں ۔ مگر یہ ساری عطائیں ان چند خواہشات کی بے رنگیوں پہ حاوی ہوجاتی ہیں ۔ اور شکوے شکایات کے موسم میں سارا جہاں ظلم سے تاریک محسوس ہوتا ہے ۔

وہ چند بے رنگیاں ان تمام رنگینیوں کو مٹا ڈالتی ہے جو ہماری زندگی میں موجود ہوتی ہے ۔ جو ہمیں قدم قدم پر طاقت پہنچایا کرتی ہے ۔

پھر آہستہ آہستہ معرفت کے رستے سے اتر کر ہم ان کانٹے دار رستے کا انتخاب کرلیتے ہیں جہاں زندگی محض بے کلی اور حتی الوسع پھیلے باغ و بہار ہمارے لیے وسیع النظر صحرا کی مانند پھیلی رہتی ہے ۔ جہاں شکر کا گزر نہیں ہوتا جہاں خوشی و غمی کے معانی بدل چکے ہوتے ہیں ۔ جہاں دور دور تک محض " خواہشات" کی بے رنگیوں کا دور دورہ ہوتا ہے ۔

اور خدا ۔۔۔۔

 

مستقبل کے معمار

 

 قائد نے کہا تھا” بچے مستقبل کا معمار ہیں

نسلیں بدل گئیں تعمیر پہ تخریب کا پلڑا بھاری ہے ۔ کیا آج ہم اپنے بچوں کو “ مستقبل کا معمار “ بنانے کی سعی کر رہے ہیں یا ان کے دماغوں میں “ کیرئر یا لائف اسٹائل یا نواب “ بننے کو کامیابی سے تعبیر کرارہے ہیں ؟

کیونکہ کیرئر بیسڈ کے لیے اپنا لائف اسٹائل سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے ۔ اور پھر جب اس کے ہاتھ میں اختیار آتا ہے تو چھوٹوں میں “ برتر “ اور برتروں میں “ خوشامدی “ ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ حرام و حلال کی تمیز سے ماورا صرف اپنی ذات میں محدود بینک بیلنس ، برتر عہدہ ، بڑی گاڑی ، بڑا گھر ، عالمی سیاحت وغیرہ سے باہر کبھی نہیں نکل سکتے ۔ اور یہ فکر ہم میں جونک کی طرح چمٹ گئی ہے ۔ کیونکہ جس کو حاصل ہوگیا وہ نوچنے میں مصروف ہوگیا اور جسے نہیں ہوا وہ حسد و ہیجان ، نفرت و احساس کمتری میں مبتلا ہوکر رہ گیا ۔

شہیر 

شورش کاشمیری کا اداریہ

 

 

ایوب خان کے زمانہ استبداد میں شورش کاشمیری کا اپنے ہفت روزہ رسالے "چٹان " میں لکھا گیا  ... اداریہ ۔۔۔۔۔

" آخری چارہ کار"

یونان کا ایک نامور فلسفی جب عوام کی ناقدری سے عاجز آگیا اور اس نے محسوس کیا کہ اس کے فکر و نظر اور علم و حکمت پر لوگ توجہ نہیں دیتے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں اور اس پر پتھراو کرتے ہیں تو اس نے دشنام و اتہام سے تنگ آکر رقص و سرود کا ایک طائفہ بنایا ، پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا ، چہرے پر بھبھوت مل لی ، ہاتھوں میں کنگن ڈال لیے ، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور پاگلوں کی طرح بازاروں میں ناچنے لگا ، وہ رقص و غنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھا ، لیکن رسمی دانشوروں نے سر پراٹھالیا ۔ اس کے رقص پر محاکمہ ہونے لگا کہ اس فن میں نئی راہیں نکالی ہیں تب پاگل تھا  اب مجتہد ہے ۔

جب یونان میں اس کے اس نئے روپ کا شہرہ عام ہوگیا تو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن وہ اوپن تھیٹر میں اپنے طائفہ سمیت رقص و سرود کے نئے انداز پیش کرے گا ، تمام ایتھنز ٹوٹ پڑا ، اس نے رقص کا نیا انداز پیش کیا ، سرتاپا دیوانہ ہوگیا ناچ نہیں جانتا تھا لیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا ، عوام و خاص اور امرا و شرفا لوٹ پوٹ گئے ۔ جب وہ وتھک گیا اور محسوس کیا کہ جو لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اس کی مٹھی میں ہیں ۔۔۔ تو یکایک سنجیدہ ہوکر کہا :

" یونان کے بیٹو ! میں تمہارے سامنے علم و دانائی کی باتیں کرتا رہا میں نے تمہاری برتری کے لیے فکر و نظر کے موتی بکھیرے ، تم نے میری باتیں سننے سے انکار کردیا ۔ میرا مذاق اڑایا ، مجھے گالیوں سے نوازا ، پتھراؤ  کیا اور خوش ہوتے رہے ۔ تم نے حق و صداقت کی ہر بات سننے سے انکار کردیا ۔ مجھے پاگل قرار دیکر خود پاگلوں سی حرکتیں کرتے رہے ، تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دیے ۔ تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امراء و حکام کی جاگیر ہوگئی ہیں ۔ 

میں عاجز آگیا تو میں نے یہ روپ اختیار کیا ، میں فلسفی کی جگہ بھانڈ ہوگیا ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں ۔ لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسائے ، پہلے تم میں سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے ، آج انسانوں کا جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور ایک فنا ہوجانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کرلی ہیں تم ایک انحطاط پذیر ملک کی علیل روحوں کا انبوہ ہو ۔  تم پر خدا کی پھٹکار ہو تم نے دانائی کو ٹھکرایا اور رسوائی کو پسند کیا ۔

تم خدا کے غضب سے کیونکر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہوگیا ہے اور عیش  ، شرف و آبرو۔ جاو میں تم پر تھوکتا ہوں ، میں پہلے بھی پاگل تھا آج بھی پاگل ہوں ۔ "

 

جب علم و نظر اور فکر و معروف کہ یہ مرحلہ جانکنی پیش آجائے ۔ خوشامد کابول بالا  ہو اور حکمت و دانائی احمقوں کے گھرانے میں چلی جائے اور وہ اپنے دماغ کی علالت کو صحت کا نام دینے لگیں ۔ علم کے مالک جاہل ، ادب کے اجارہ دار گاؤدی ، سیاست کے متولی کاسہ لیس ، اور دین کے مسند نشین بکاو ہوجائیں تو اس فضا میں یونان کے فلسفی کی طرح  پاگل ہوکر ناچنا بھی عین عبادت ہے اور نہیں تو اس سے خدا کا غضب ہی ٹھنڈا ہوتا ہے ۔  

Thursday, August 18, 2022

نظر

 

نظر

شہیر شجاع

دنیا اس حسین دو شیزہ کی مانند ہے جس کی چال ، اس کے لچھن ، خال و خد ، مسکراہٹ ، کھلکھلاہٹ اس کی سریلی آواز اپنی جانب مائل کرتے ہیں ۔ مرعوب کرتے ہیں ، متاثر کرتے ہیں ۔ جیسے بڑے بڑے شاپنگ مالز ، لگژری سواریاں ، تزئین و آرائش کی شاہکار بلند و بالا عمارتیں ، مہنگے ملبوسات کچھ دیر کے لیے انسان کے نفس میں رعب ڈال دیتے ہیں ۔ اپنی دسترس میں حاصل کرلینے کی جانب مائل بہ فریاد ہوتے ہیں ۔

لیکن ذرا غور کرے انسان تو فنا ان تمام رعنائیوں سے کراہت پیدا کردیتا ہے ۔

دوسری جانب بلند و بالا پہاڑ ، سرسبز وادیاں ، ٹھاٹھیں مارتا سمندر ، جاری دریا ، ندیاں ، پیڑ پودے ، وسیع ریت کے میدان ، صحرا جمالیات کی تشنگی دوبالا کردیتے ہیں ۔

اپنے خالق کے لا متناہی جمال کے تصور سے قلب و وجود کو ششدر کر دیتے ہیں اور وہ پکار اٹھتا ہے “ اللہ نور السموات والارض “ ۔

بس اس نظر کا حصول ہی زندگی ہے

 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...