خواہشات
جب خواہشات کا گلا گھونٹنا جیسے پھٹیچرجملے ہماری زندگی کا حصہ بن
جائیں اور ایسے جملے ہماری فکر کو ، ہمارے احساسات کو ، جذبات کو متاثر کرنے لگیں
تو پھر خدا کی حیثیت محض خواہشات میں رنگ بھرنے والے کی رہ جاتی ہے ۔ خدا جو خالق
کائنات ہے ، جس نے مجھے بنایا ، جو مجھے رزق دیتا ہے ، مجھے بیمار کرتا ہے تو مجھے
شفا بخشتا ہے ، مجھے غموں سے آزماتا ہے تو میری زندگی کو اپنی نعمتیں و رحمتیں عطا
کرتا ہے جو ان غموں و کمزور لمحوں پہ ہزار گنا بھاری ہوتی ہیں ۔ مگر یہ ساری
عطائیں ان چند خواہشات کی بے رنگیوں پہ حاوی ہوجاتی ہیں ۔ اور شکوے شکایات کے موسم
میں سارا جہاں ظلم سے تاریک محسوس ہوتا ہے ۔
وہ چند بے رنگیاں ان تمام رنگینیوں کو مٹا ڈالتی ہے جو ہماری زندگی
میں موجود ہوتی ہے ۔ جو ہمیں قدم قدم پر طاقت پہنچایا کرتی ہے ۔
پھر آہستہ آہستہ معرفت کے رستے سے اتر کر ہم ان کانٹے دار رستے کا
انتخاب کرلیتے ہیں جہاں زندگی محض بے کلی اور حتی الوسع پھیلے باغ و بہار ہمارے
لیے وسیع النظر صحرا کی مانند پھیلی رہتی ہے ۔ جہاں شکر کا گزر نہیں ہوتا جہاں
خوشی و غمی کے معانی بدل چکے ہوتے ہیں ۔ جہاں دور دور تک محض " خواہشات"
کی بے رنگیوں کا دور دورہ ہوتا ہے ۔
اور خدا ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment