محمد شہیر شجاعت20/2/2014ہجرت اپنے اندر بہت کرب سموئے ہوئے ہے ۔ ہجرت کی طرف اپنے من کو مائل کر لینا بھی جان جوکھم کا کام ہے ۔ حدود میں گھری ساری ہی سرزمین اپنی ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن شہر تو شہر اپنا محلہ بلکہ جس گھر میں ایک عرصہ زندگی کا گزار دیا ہو ، اس کو ترک کرنا بھی اپنے آپ میں دل گردے کا کام ہوتا ہے ۔جس طرح اس کا وجود زندگی کے مختلف تجربات سے گزرا اور گزر رہا تھا اسی طرح اس کا شہر بھی زمانے سے مختلف تجربات کا شکار تھا ۔ کبھی اس شہر کی سڑکوں کو پانی سے غسل دیا جاتا تھا ۔ آج وہی سڑکیں گرد آلود تھیں بلکہ اکثر جگہیں تو سرخ رنگ جذب کرتے کرتے اپنا رنگ ہی کھو بیٹھی تھیں۔ کبھی فضا مختلف اللسان انسانوں کی محبت سے معطر تھی ۔ تو آج وہی فضا لسانی و مذہبی تعصب سے آلودہ تھی ۔ روزگار و تجارت کے مواقع نے اس شہر کو باقی شہروں میں ممتاز کر رکھا تھا ۔ اس شہر نے ہر ایک کو پناہ دی تھی ،پناہ ہی نہیں بلکہ اپنے سینے سے لگایا ، ہر ضروریات زندگی سے لیکر آسائش زندگی تک سب کچھ مہیا کیے ۔ شاید اس شہر کی دریا دلی دشمنوں کو راس نہ آئی ، دشمن تو دشمن محافظ شہر بھی در پردہ دشمنوں کے نمائندہ ہوگئے ۔ اس ترقی یافتہ دور میں درپردہ عناصر کب تک مخفی رہ سکتے ہیں ۔اس کے لیے اپنا شہر اس طرح سے جلتا دیکھنا اب ممکن نہ رہا تھا ۔ وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا اپنا خون جلاتا رہتا ۔ لیکن دعاوں کے علاوہ وہ کوئی مضبوط قدم نہ اٹھا سکا ۔ اب شاید وہ کمزور ہو گیا تھا ۔ اسی لیے اس نے ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ وہ اکیلا ہی نہ تھا جو اس شہر بے اماں سے کہیں دور زندگی کی تلاش میں نکل نہ جانا چاہتا ہو ۔ جلتا ہوا شہر اپنے باسیوں کو دیکھتا رہا اور جلتا رہا ، وہی لوگ جنہیں اس شہر نے اپنا سینہ سینچ کر بسایا تھا ، آج وہی سب اسے تنہا دشمنوں کے ہاتھوں جلتا چھوڑ کر چلے جا رہے تھے ۔اس نے کسی پر امن جگہ کی تلاش میں سفر کا آغاز کیا ۔۔ مختلف شہروں ، دیہاتوں ،پہاڑوں ، صحراوں کی خاک چھانتا ایک ایسی بستی میں پہنچا جہاں چند گنتی کے گھر تھے ایک چھوٹا سا بازار تھا ۔اور مختصر کھیت کھلیان اس بات کا پتہ دے رہے تھے کہ یہی ان لوگوں کی گزر بسر کا ذریعہ ہے ۔ اس کو چند لوگوں سے مکالمے کے بعد علم ہوا کے یہ خوش باش لوگ مسلمان تو ہیں لیکن انہیں دین و دنیا کا کچھ نہیں پتہ ۔۔ بس یہ کہ مسلمان ہیں اپنے آباء سے سنتے آئے تھے ۔ گاوں کے باسی باہری دنیا سے لاتعلق رہنا پسند کرتے تھے ۔ ان کے خیال میں بڑے بڑے شہروں میں انسان نما جاندار بستے ہیں ۔ قصہ مختصر وہ لوگ اپنی زندگی میں خوش تھے ۔یہ سب دیکھ کر وہ تو لرز کر ہی رہ گیا ۔یہاں اب تک علم کی روشنی پہنچی کیوں نہیں ؟ یہاں تک کہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محرومی کیوں ؟کیا یہ دیہات ریاست کی حدود سے باہر ہے ؟یا اس ریاست کے ذمہ داران اور باسی اپنی ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھے ہیں ؟ہمیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وارث کہا گیا تھا ۔ پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون کون سی تعلیمات عام کی ؟ اور کون کون سی تعلیمات اپنے آپ پر ہی رائج کی ؟اسے رہ رہ کر اپنے جلتے شہر کا خیال ستانے لگا ۔ وہاں تو علم کی گنگا بہتی ہے ۔ لیکن کیا اس علم کا کوئی فائدہ ہے جس کے ہوتے ہوئے بھی آپس میں محبت ، میل جول ، امن و شانتی سب کچھ نابود ہوتے جارہے تھے ؟وہ سوچتا جا رہا تھا اور خوف و ندامت کی ملی جلی کیفیت نے اسےہلا کر رکھ دیا تھا ۔ آج اتنے عرصے بعد وہ اپنی زندگی کا محاسبہ کر رہا تھا ۔۔ کیا کھویا کیا پایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاتھ ملنے کے سوا اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔ایک درخت کے سائے میں جا کر درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا ۔ گاوں والوں اور اپنی زندگی کا موازنہ کرنے لگا ۔ اس کے ساتھ ہی اسے بہت کچھ مثبت مستقبل کے لیے نظر آنے لگا ۔ ۔ اسے خیال آیا کہ شاید اس کا یہاں آنا بلا مقصد نہیں ہے۔ اس کی تعمیری سوچ نے بھرپور انگڑائی لی اور اس کو اپنا پہلا قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا دیں اور اپنے رب سے معافی تلافی کرتا رہا اور شکریہ بھی کہ اس کریم رب نے اسے اب ایک موقع عطا کیا تھا ۔ابتداء کیسے کی جائے ؟ گاوں کے مکھیا کے پاس جاتا ہوں وہ ہی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے لہذا وہ لوگوں سے پوچھتا ہوا مکھیا تک جا پہنچا ۔۔اور اپناتفصیلی تعارف کروایا ۔۔۔اور استدعا کی کہ اسے اس گاوں میں ایک مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ، جہاں وہ ان گاوں والوں کو اسلام کے کم از کم بنیادی علوم سے آگاہ کر سکے ۔ پنج وقتہ نماز کی ادائیگی ممکن ہو، وغیرہ وغیرہ ۔ خصوصا جہاں سے وہ ابتداء کرنے جا رہا تھا اس کے لیے دور رس سوچ کا حامل ہونا بہت ضروری تھا، ۔اس نے شہر سے مولویوں کو بلانے کی سوچ کو جھٹک دیا تھا ۔ وہ بلاتا بھی تو کس کو؟ایک کو بلاتا تو پیچھے سے کوئی دوسرا بھی آنپہنچتا ، اس کی بھنک کسی اور کو پڑتی تو پھر کوئی اور ، اور اس طرح یہ گاوں بھی اکھاڑہ بن جاتا ۔ نیکی گلے پڑجاتی۔ اس نے یہی تہیہ کیا کہ پہلے وہ انہیں بنیادی علوم سے آشنا کرے گا اور لکھنے پڑھنے کے قابل کرے گا ۔ اور علم کے سمندر میں انہیں غوطہ زن چھوڑ دے گا ۔ پھر وہ خود ہی فیصلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے صحیح غلط کے تو پھر وہ آگے کا سوچے گا ۔مکھیا نیک آدمی تھا ۔ وہ اس گاوں کے باہر کے حالات سے واقف تھا اسی وجہ سے اس کی کبھی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ ایسا قدم وہ اٹھائے ۔ مکھیا کو نہ جانے کیوں اس پر یقین کرنے کا من کر رہا تھا ۔۔۔ مکھیا کو وہ فرشتہ معلوم ہو رہا تھا ۔ اس نے بڑی ہی خوشدلی سے اسے صرف اجازت ہی نہیں دی بلکہ مزدور بھی فراہم کر دیے ۔چند ہی دنوں میں مسجد کی بنیاد ڈالدی گئی ۔ مسجد کا نقشہ ندیم نے خود ہی تیار کیا تھا ۔ مسجد کی دیواریں کھڑی ہونے لگیں ۔ اس نے ہوا اور روشنی کی سہولت کے پیش نظر ہر دیوارمیں مختلف زاویوں سے ہر دیوار کےبالکل آمنے سامنے کھڑکیاں بنوائیں ۔ اسی طرح سے چند مختلف کاریگری کے بعد مسجد تیار ہوگئی ۔درس و تدریس ، صوم و صلوہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔جس کے لیے اس نے اپنی تمام جمع پونجی لگا دی تھی اور کتب کا اچھا خاصا ذخیرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ کچھ ہی عرصے میں جب اسے محسوس ہوا کہ گاوں کے لوگوں میں کافی شعور آنے لگا ہے تو ۔ اس نے واپس شہر جانے کا فیصلہ کیا کہ وہ مزید چند لوگوں کو ساتھ لائے جو ان کو عصری علوم سے بھی آشنا ہونے میں مدد دیں گے ۔ پھر ہم یہاں اسکول ، کالج ، مدرسوں کا قیام بھی عمل میں لانے کا سوچیں گے ۔مکھیا جی ! کیا خیال ہے ۔۔۔ مزید چند درد مند افراد کو بلا لیا جائے ۔ جو ہمیں مزید آگے بڑھنے میں مدد دیں ؟کہاں سے اور کیسے بلاو گے بیٹا ۔ اور کوئی بنا فائدے کے ہماری مدد کرنے پر رضا مند ہوگا بھی کیسے ؟ مکھیا نے اس کی بات سن کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کئی سوال کر ڈالے ۔ہم کوشش تو کر سکتے ہیں مکھیا جی ۔۔ انسان دوست۔۔۔ بھلا۔۔۔ ناپید تھوڑی نا ہوئے ہیں ۔ میں شہر جا کر اپنی بساط کےمطابق کوشش کرتا ہوں ۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ۔۔ اللہ خیر کرے گا ان شاءاللہ ۔تھوڑے ہی بحث مباحثےے کے بعد مکھیا جی نے رضا مندی ظاہر کردی ۔ اور وہ شہر کو چل پڑا ۔کچھ ہی دنوں کی محنت کے بعد بیس افراد اس کے ساتھ تھے ۔ جو کہ کافی تھے ۔ اپنے اپنے فن میں ماہر وہ لوگ جب اس گاوں میں پہنچے تو اس کے ساتھ آئے لوگوں نے اس کی محنت کو خوب سراہا اور خوشی کا اظہار کیا کہ اب وہ لوگ یہاں سے اپنے نئے سفر کا آغآز کریں گے اور اس چنگاری کو اس سر زمین کے چاروں کونوں تک پھیلا ئیں گے ۔وہ اور اس کے ہمرکاب ۔۔مکھیا کے ساتھ بیٹھے کافی خوش، مستقبل کی پلاننگ کر رہے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف شہر سے ان کے پیچھے پیچھے دو دشمن قوتوں کے آلہ کار بھی اس گاوں میں آپہنچے تھے ۔جب وہ اس تگ و دو میں تھا کہ چند معتبر افراد کو اکھٹا کر ے اس وقت اس کی کوششوں کی بھنک ان لوگوں کو پڑ چکی تھی ۔ اور انہوں نے اس کے پیچھے اپنے بہت ہی طاق دو بندے بھیج دیے تھے ۔ان دونوں نے باریک بینی سے گاوں کا جائزہ لیا ۔ ان کی نظر جب مسجد پر پڑی تو ان کی تو بانچھیں کھل گئیں ۔ وہ سمجھ گئے ہو نہ ہو یہ تمام لوگ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ اسی جگہ پر مل سکتے ہیں ۔ اور دونوں پلاننگ کرنے لگے ۔آخر کار یہ طے ہو ا کہ جیسے ہی نماز شروع ہو ایک دائیں کھڑکی سے جبکہ دوسرا بائیں کھڑکی سے ایک ساتھ حملہ کریں گے ۔ ان میں سے پہلا ، دوسرے کو اشارہ دے گا دونوں کے پاس موجود بیپ کے ذریعے اور فائر کھول دیا جائے گا ۔مغرب کی نماز کا وقت تھا ۔وہ اور اس کے ہمراہی ، مکھیا اور گاوں کے افراد آنے والی قیامت سے بے نیاز مسجد کی طرف رواں تھے۔ مسجد کے وضو خانے سے سب نے وضو کیا ۔ اور آہستہ آہستہ تمام افراد مسجد میں جمع ہوچکے تھے ۔چاچا زمان نے اقامت شروع کی ۔ اس نے پروفیسر حامد صاحب کو امامت کے لیے آگے کر دیا ۔اللہ اکبر کی صدا گونجی ۔ حامد صاحب کی دل کو موہ لینے والی قرات کا آغاز ہوا ۔ اور یہ دونوں بد بخت اپنی پناہ گاہ سے نکلے اور مسجد کے دونوں اطراف کی کھڑکیوں میں اپنی اپنی جگہ سنبھال لی ۔حامد صاحب کی قرات جاری تھی ۔ نمازیوں پر رقت طاری تھی ۔ اور یہ بد بخت اپنی اپنی بندوقوں کے ساتھ تیار کھڑے تھے ۔ایک ۔ ۔۔ دو ۔۔۔۔ تین ۔۔۔۔ پہلے نے تین کہا اور اگلے کو بیپ دی ۔ دونوں کی بندوقوں سے دل دہلا دینے والی آواز نے مسجد کی فضا آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ دو سے زائد فائر نہ ہو سکے ۔اس بد بخت کے تین کہنے کے ساتھ ہی امام صاحب کی اقتداء میں نمازی رکوع میں جا چکے تھے ۔ اور یہ دونوں بد بخت ایک دوسرے کی ہی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے ۔
Wednesday, March 12, 2014
پہلا قدم اور اللہ کا کرم
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
فوکس
فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...
-
آج ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہم نے اسی رویے کو اپنا رکھا ہے ۔ تعمیر و تنقید ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی تعمیر ہوگی تو تنقید بھی ہوگی ۔ اور...
-
آئی جی پولیس افضل شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا ، دو پلاٹ اپنی بیگم ، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے ۔ یہ وہ پلاٹس ہیں جو پولیس شہ...
-
حقوق نسواں اور نو مسلم عورت ڈاکٹر لیزا کلنگر ۔۔۔۔ ایک امریکی خاتون ڈاکٹر ہیں ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی سرگرم مبلغہ رہی ہیں ۔ اسل...
No comments:
Post a Comment