Wednesday, March 19, 2014

ابن خلدوں و میکاولی کا ایک موازنہ ، اقتباس

ابن خلدوں و میکاولی کا ایک موازنہ ، اقتباس

ابن خلدون کہتا ہے ۔۔۔۔ایسی سلطنتیں جن کو عام غلبہ اور وسعت حاصل ہو ان کی بنیاد مذہب پر ہوتی ہے جو یا تو نبوت کے توسط سے ہوتی ہے یا دعوت حق کے ذریعے، اس قسم کی دینی دعوت، عصبیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ اہل النساب "بدوئین" ہی کے درمیان پائی جاتی ہے اور شہری یعنی اہل حضر اس سے محروم رہتے ہیں ۔،کیونکہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں کسی بات پر متفق نہیں ہوتے بخلاف بدوئین کے جو عصبیت کے ذریعے ایک دوسرے کی مدافعت کرتے ہیں اور ان کے اکابر و پیشوا بھی ۔ اس وقار کے لحاظ سے جو عامۃ الناس میں ان کو حاصل ہوتا ہے ان کی حمایت کرتے ہیں ان کی مدافعت اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک وہ اہل عصبیت و اہل نسب نہ ہوں اپنے قول کی تائید میں اب خلدون نے تاریخ اسلام سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں کیونکہ سلطنت اسلامیہ کی بنیاد دین و عصبیت پر ہے ۔


میکاولی کیا کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔امیر کا مقصد سوائے جنگ اور اس کے نظام اور ترتیب کے کچھ نہ ہونا چاہیے کیونکہ حکام کے لیے یہ ناگزیر فن ہے اس کے ذریعے موروثی بادشاہوں کی سلطنت کا تحفظ ہوتا ہے اور بعض دوسرے طبقات کے افراد کو حکام کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے ۔ ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایسے حکام جو فوجی و حرب تدابیر پر غور و خوض کرنے کے بجائے زیادہ تر رفاہ عام میں کوشاں رہتے ہیں بالاخر امارت کھودیتے ہیں ۔ سب سے بڑا سبب جس کی بنا پر حکام اپنی سلطنتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ان کا جنگ سے اجتناب کرنا ہے ۔ وہ اسی وقت ممالک پر قبضہ کر سکتے ہیں جبکہ وہ علوم حرب میں کافی مہارت رکھتے ہوں ۔

تاریخ ابن خلدون ، مقدمہ از جمعہ لطفی

No comments:

Post a Comment

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...